News

6/recent/ticker-posts

قومی معیشت کا مستقبل

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل کا یہ انکشاف کہ ان کے پیش کردہ بجٹ سے آئی ایم ایف خوش نہیں لہٰذا مزید مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے، ایک طرف اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ماضی کی غلط معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ہم عالمی مالیاتی ادارے کے اس قدر محتاج ہو گئے ہیں کہ اس کی تمام شرائط کی پابندی کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں بچا ہے اور دوسری طرف یہ کہ پاکستان کے عوام کو جو پہلے ہی جاں بہ لب ہیں، ابھی مزید ابتلائیں برداشت کرنی ہیں۔ ہفتے کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے، حکومت کو مزید مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اور ملک کو انتظا می طور پر ٹھیک کرنا ہو گا۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ہی دیگر ذرائع سے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کے راستے کھلیں گے۔ 

وزیر خزانہ کا دعویٰ تھا کہ درپیش سنگین بین الاقوامی اور ملکی حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا گیا ہے،عام آدمی کو ریلیف دینے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جبکہ پہلا ہدف مالیاتی استحکام اورپاکستان کو سری لنکا بننے سے روکنا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 25 لاکھ دکانداروں کو فکسڈ ٹیکس کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لائیں گے، تمام سرکاری کمپنیوں کی نجکاری ہو گی، یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا، گھی، چینی سارا سال رعایتی نرخوں پر دستیاب ہوں گے۔ بجٹ میں صاحب ثروت افراد پر ٹیکسوں کا کچھ بوجھ ڈالا، کم آمدنی والے افراد کو ریلیف دیا، آئندہ مالی سال میں تاریخ رقم کریں گے، برآمدات کو 35 ارب ڈالرز تک لے جائیں گے۔ کئی ممتاز معاشی تجزیہ کاروں نے بھی بجٹ کو سخت چیلنجوں اور مشکلات کے ماحول میں پیش کیا گیا متوازن بجٹ قرار دیا ہے۔ جیو ٹی وی کی نشریات میں انہوں نے تسلیم کیا کہ پچھلی حکومت کے اقدامات کے سبب موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ 

سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک لیے گئے قرض میں پچھلی حکومت کا حصہ 76 فی صد ہے۔ ستم یہ کہ ملک پر قرض کا یہ ناقابل برداشت بوجھ لادنے کے باوجود اس دور میں نہ صرف یہ کہ نئے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز نہ ہونے کے برابر رہا بلکہ سابقہ منصوبوں پر کام کی رفتار بھی بہت سست رہی۔ یہ حقائق اپنی جگہ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں سے جنم لینے والے روح فرسا حالات میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ملک کی بھاری اکثریت جسم و جان کا رشتہ کیسے برقرار رکھ پائے گی۔ بجٹ کے نفاذ سے پہلے ہی مہنگائی کی ایک اور منہ زور لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں مزید بھاری اضافوں نیز بجلی اور گیس پر سبسڈی کے مکمل خاتمے کے فیصلوں کے بعد جو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق جلد ہی متوقع ہیں، اشیائے خور و نوش سمیت روز مرہ کی ناگزیر ضروریات زندگی رہائش، علاج معالجہ، تعلیم، ٹرانسپورٹ وغیرہ عام آدمی کی دسترس سے بالکل ہی باہر ہو جائیں گی۔ 

غذائی ضروریات کی حد تک اس صورت حال سے اگر یوٹیلٹی اسٹوروں کے ذریعے ہی نمٹا جانا ہے تو اس ادارے کوحسب ضرورت وسعت دینا اور اسکی انتظامیہ کو وقت کے تقاضوں کے مطابق فعال رکھناضروری ہو گا۔ غیرمنافع بخش اداروں کی نجکاری مالی مسائل کا ایک ممکنہ اور یقینی حل ہے اس لیے اس پر کام کی رفتار تیز کی جانی چاہیے۔ حکومتی عہدیداروں اور اعلیٰ سول و ملٹری افسروں کے مراعات میں آخری حد تک کمی کر کے حاصل ہونے والے وسائل عوام پر خرچ کیے جانے چاہئیں۔ ریکوڈک، سینڈک اور تھر میں سونے، تانبے اور کوئلے وغیرہ سمیت معدنی ذخائر ملک کے روشن معاشی مستقبل کی ضمانت ہیں لہٰذا قومی مفاد کے مطابق اس سمت میں جلد مؤثر اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments