News

6/recent/ticker-posts

کرپشن کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

بہت برس گذرے پاکستان ریلویز میں ایک ایماندار اور سخت افسر تعینات ہوئے، چارج لینے کے بعد انہوں نے ماتحت عملے کو کھینچ دیا کہ کوئی رشوت نہیں لے گا، کام میرٹ پر ہونگے، سرکاری کاموں کے عوض کوئی رقم نہیں لی جائے گی، کوئی ذاتی فائدے یا مالی تعاون نہیں لے گا۔ چونکہ افسر سخت تھا ماتحت عملے کو ہتھیار پھینکنا پڑے، رشوت کا لین دین ختم ہوا، ماتحت عملے نے نہ چاہتے ہوئے بھی افسر کی بات مانی اور ایمانداری سے کام شروع کر دیا لیکن جب سٹاف کو تنخواہ ملی تو سب اپنی تنخواہیں اور اخراجات کی فہرست لے کر اپنے ایماندار، فرض شناس افسر کے کمرے میں جا پہنچے۔ سب نے اپنی اپنی تنخواہ اور اخراجات کی فہرست میز پر رکھ دی اور کہا "سر ہم نے آپکی سختی کی وجہ سے رشوت لینا ترک کر دی ہے اب ہم یہ کام نہیں کریں گے لیکن یہ تنخواہ اور گھریلو اخراجات کی فہرست آپ کے سامنے ہے ہمارا بجٹ بنا دیں، مہینے کا خرچ بھی آپ پورا کر دیں۔ ہم آپ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ایمانداری سے کام کرتے رہیں"۔

کورونا چیلنجزکے باوجود کاروبارکی شرح میں اضافہ ہوا، وزیراعظم اس کے بعد کیا ہوا، صاحب نے اخراجات کی فہرست دیکھی، تنخواہوں کا پہلے سے علم تھا، آنکھیں جھکائے بیٹھے سوچتے رہے اور کچھ دیر بعد سٹاف سے کہا کہ جائیں اور اپنا کام کرتے رہیں۔ ہم اس سرکاری افسر کو جانتے ہیں ان دنوں ان کی صاحبزادی بھی ایک سرکاری محکمے میں بڑے عہدے پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ والد کی طرح ایماندار ہیں۔ انہیں "مل جل" کر کام نہ کرنے کی وجہ سے کہیں ٹکنے نہیں دیا جاتا، اس کے گھر والے ہر وقت بیٹی کی حفاظت کے لیے وظائف کرتے رہتے ہیں۔ ایمانداری کے انعام میں ہر دوسرے دن اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ ایک واقعہ غالباً اسی کی دہائی کا ہے۔ کراچی کے ایک دیندار، معتبر اور نہایت اچھی شہرت کے حامل گھرانے کا ایک چشم و چراغ سرکاری ادارے میں ملازم تھا۔ ایک دن رشوت لینے کے الزام میں گرفتار ہو گیا، بعد میں پیشیاں بھگتتا رہا، شاید ڈیڑھ سال بعد دوبارہ عہدے پر بحال بھی ہو گیا۔ 

ہماری بھی ان سے شناسائی تھی۔ کچھ عرصہ قبل ان سے ملاقات ہوئی۔ ملک کے حالات زیر بحث آئے، احتسابی عمل پر بات چیت ہوئی اور اداروں میں کرپشن پر گفتگو شروع ہوئی تو ہم نے سوال کیا آپ نے اپنی ملازمت کے دوران رشوت کیوں لی، کیوں غلط طریقے سے کمائی گئی رقم گھر لے کر آئے جبکہ آپ کی تربیت بہت مذہبی ہوئی ہے، آپ کے گھرانے کی شہر میں بہت عزت تھی پھر بھی آپ اس راستے پر چل پڑے۔ کہنے لگے چودھری صاحب جب آمدن کم ہو، اخراجات زیادہ ہوں تو پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انسان ناپسندیدہ راستے پر چل پڑتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ کون چاہتا ہے کہ وہ رشوت لے کر بچوں کو پالے، کون چاہتا ہے کہ اس کا گھر غیروں کے پیسے پر چلے، کون چاہتا ہے اس کے والدین اور بیوی بچے شرمندہ ہوں لیکن حالات ایسا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہم سب باتیں سن کر خاموش ہو گئے پھر کسی سوال کی ہمت نہ رہی، نہ ہی اس دلیل کے بعد کوئی سوال بنتا تھا۔ آج بھی ہمیں ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ جب زندگی مشکل ہو گی تو پیسہ کمانے کے غلط طریقوں پر چلنے کے نت نئے راستے نکلیں گے۔ 

کوئی مجبوری کے تحت، کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے، کوئی علاج معالجے کے لیے تو کوئی بچوں کی تعلیم کے لیے غلط طریقے سے پیسے کمائے گا۔ کوئی حکومت کوئی نظام، کوئی احتساب کوئی سختی اسے روک نہیں سکتی۔ قارئین کرام ان دنوں ملک بھر میں احتساب، احتساب، احتساب، کرپشن، کرپشن کرپشن کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں، پیشیوں کا سلسلہ جاری ہے، احتجاج ہو رہے ہیں، پارلیمنٹ بھی جلسہ گاہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ احتساب کے جواب میں ہو رہا ہے۔ اداروں کو مفلوج کیا جا رہا ہے، دہائیوں سے وسائل پر قابض مافیا کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں جانے والے خود مسائل کا شکار ہیں۔ وہ خود مسائل سے نکلنے کے لیے عوامی مدد کے منتظر ہیں۔ احتسابی عمل نہایت عمدہ اقدام ہے، وہ تمام افراد جنہوں نے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا انہیں کسی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہیں عبرت ناک سزا ملنی چاہیے۔ اس معاملے میں بے رحمانہ فیصلے کیے بغیر بہتری کی طرف سفر ناممکن ہے۔ ہم سب کو مل کر اس احتسابی عمل کو سپورٹ کرنا چاہیے اور یہ احتساب کسی سیاسی جماعت یا کسی حلقے تک مخصوص نہیں رہنا چاہیے۔
 
عزیز پاکستانیو اس احتسابی عمل میں کہیں ہم سب سے اہم پہلو کو نظر انداز تو نہیں کر رہے، کیا یہ گرفتاریاں، پیشیاں اور حاضریاں پاکستان کو کرپشن سے پاک کر سکتی ہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم اوپر کی سطح کو کرپشن سے پاک کرنے کی طرف سفر شروع کر سکتے ہیں لیکن تاریخ، حالات، واقعات، مشاہدات اور تفتیشی عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک لمبا عمل ہے اسکا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ یہ بات کہنا بھی قبل از وقت ہے کہ تمام ملزم یا مجرم منطقی انجام تک پہنچ پائیں گے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس عمل کے دوران ہم معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے اور عام آدمی کو ایمانداری سے کام کرنے کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں کو مضبوط کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ جہاں زندگی مشکل ہوتی جائے وہاں بے ایمانی فروغ پاتی ہے، کرپشن کے دروازے کھلتے ہیں۔ ہر دوسرا شہری کرپٹ ہو جاتا ہے۔  بدقسمتی سے قیام پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اقدامات نہیں کیے، امیر اور غریب کے مابین فرق بڑھتا چلا گیا، ملک کی اسی فیصد سے بھی زائد آبادی کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی گئی، اس مشکل زندگی کے نتیجے میں رشوت کا بازار گرم ہوا ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں موجود ہر دوسرا شخص جیب کاٹنے کے عمل میں شریک ہے۔

قارئین کرام جب تک ریاست شہریوں کے لیے زندگی آسان نہیں بنائے گی اس وقت تک کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، جب تک کھانے پینے کی اشیاء کی سستے داموں فراہمی، تعلیم اور صحت کی سستی سہولیات میسر نہیں ہوں گی اس وقت تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ لوگ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے آج بھی وہی راستہ اختیار کریں گے جو ساٹھ کی دہائی میں کرتے تھے، جس راستے پر ستر کی دہائی میں چلتے رہے، جس ذریعے سے اسی کی دہائی میں پیسہ کمایا جاتا رہا، جس انداز میں نوے کی دہائی میں ضروریات پوری کی جاتی رہیں آج بھی وہی راستے سب سے آسان تصور کیا جائے گا۔ یہ ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو غلط راستے پر جانے سے بچانے کے لیے انکی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کرے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر یہ مت سمجھیں کہ اوپر کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ سے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اسی فیصد کے مسائل حل کیے بغیر کوئی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 

بچوں کی خواہشات نفسانی کو پورا کرنے، والدین کے علاج معالجے اور معاشرے میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے رشوت کا سہارا لیا جاتا تھا اور لیا جاتا رہے گا۔ اس برائی کی وجہ مہنگائی ہے، اس خرابی کی وجہ چیزوں کا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونا ہے، اس مصیبت کی وجہ عام آدمی کے وسائل کم ہونا ہے۔ کیا ہمارے حکمران عام آدمی کے وسائل کو بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

بشکریہ نوائے وقت
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments