News

6/recent/ticker-posts

منی بجٹ کے عام آدمی پر اثرات

دنیا بھر میں قومی بجٹ سال میں صرف ایک بار پیش کیا جاتا ہے جس میں دی گئی مراعات آئندہ بجٹ تک لاگو ہوتی ہیں۔ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اِاس بجٹ کی بنیاد پر اپنی لاگت کا تخمینہ لگاتے ہیں اور آرڈر بک کئے جاتے ہیں لیکن مالی سال کے دوران اگر ضمنی یا منی بجٹ پیش کیا جائے تو یہ ایک عام آدمی کے علاوہ ٹریڈرز، امپورٹرز اور ایکسپورٹرز کے لیے ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے کیوں کہ نئی ڈیوٹیز اور ٹیکسز لگنے سے ان کی لاگت بڑھ جاتی ہے جب کہ ایکسپورٹ کے آرڈرز پرانی قیمت پر ہی مکمل کرنے پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنے قرضے کی شرائط کے مطابق 700 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا سخت مطالبہ کیا تھا جب کہ ہماری حکومت 356 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر رضامند ہوئی۔ پاکستان میں منی بجٹ کی روایت عام ہے۔ اس بار بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے منی بجٹ یعنی سپلیمنٹری فنانس بل 2021ء کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا ہے جس پر بحث جاری ہے۔

منی بجٹ کی اہم تفصیلات کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء، بے بی ملک، موبائل فون، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری مصنوعات، پولٹری، پاور سیکٹر، فارماسیوٹیکل انڈسٹری کا خام مال اور ادویات، انرجی سیور بلب، برقی کاروں، بیکری آئٹمز، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز، کاسمیٹکس اور جیولری پر مجموعی طور پر 343 ارب روپے کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 17 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا جارہا ہے جس سے یہ اشیا مہنگی ہو جائیں گی اور اس کا براہ راست اثر ایک عام آدمی، صنعت کار اور تاجر پر پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق صرف فارماسیوٹیکل خام مال سے 160 ارب روپے، پلانٹ اور مشینری کی امپورٹ سے 112 ارب روپے اور کھانے پینے کی اشیاء، پاور سیکٹر، موبائل فونز پر 15 فیصد، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر 17 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس سے 71 ارب روپے اضافی وصول کئے جائیں گے۔

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق کی حالیہ پریس کانفرنس کے مطابق پاکستان میں فارماسیوٹیکل کے 800 مینوفیکچررز ہیں جن میں سے صرف 453 ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں رجسٹرڈ ہیں جس کی وجہ سے فارماسیوٹیکل سیکٹر کو دستاویزی شکل دینا ضروری ہے۔ حکومت کے مطابق 343 ارب روپے کی اضافی وصولی سے جی ڈی پی میں 0.6 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ موبائل فون، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری مصنوعات، پولٹری، پاور سیکٹر، فارما سیوٹیکل انڈسٹری کا خام مال اور ادویات، انرجی سیور بلب، کاسمیٹکس اور جیولری پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور نئے ٹیکسز لگنے کا مالی بوجھ عام آدمی پر نہیں بلکہ اشرافیہ پر پڑے گا جبکہ وزیر خزانہ کا یہ بیان کہ ٹیکس مراعات ختم کرنے اور اضافی ڈیوٹیاں نافذ کرنے سے ایک عام آدمی پر صرف 2 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔

سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان اشیاء میں زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء، بچوں کے دودھ اور ڈائپرز وغیرہ شامل ہیں اور یہ وہ اشیا ہیں جو ایک عام آدمی کے روزمرہ استعمال میں آتی ہیں، ان کی قیمتوں میں اضافے سے وہ براہ راست متاثر ہو گا۔ اسی طرح امپورٹ اسٹیج پر 525 مصنوعات جن میں خام مال، ڈائز اینڈ کیمیکلز، پولیسٹر فائبر، مشینری اور دیگر اشیاء شامل ہیں، پر ٹیکس لگنے سے ان کی امپورٹ لاگت میں اضافہ ہو گا جو ایکسپورٹرز کی مسابقتی سکت کو متاثر کرے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کا درپیش ہے لیکن بدقسمتی سے وہ اس پر قابو پانے کے بجائے اپنے اقدامات سے مہنگائی میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی دوسری شرط پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری اور آزادی دینا ہے جس میں گورنر اسٹیٹ بینک کو مکمل اختیارات دینا اور حکومت کا اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا رجحان ختم کرنا ہے۔ 

اس کے علاوہ وزارت خزانہ اب اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسیوں کے ذریعے حکومتی معاشی بے ضابطگیاں بھی کنٹرول نہیں کر سکے گی۔ اسٹیٹ بینک حکومت اور وزارت خزانہ سے کسی مشاورت کے بغیر پالیسی یا ڈسکائونٹ ریٹ، ڈالر ایکسچینج ریٹ، نوٹوں کی پرنٹنگ اور دیگر اہداف خود طے کر سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایسی خود مختاری پر اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جن کے مطابق اسٹیٹ بینک کے مانیٹری اور فسکل بورڈ کو تحلیل کرنا مناسب نہیں۔ اپوزیشن کا بھی کہنا ہے کہ حکومت اس ترمیمی بل کے ذریعے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی تحویل میں دے رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس ترمیمی بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اسٹیٹ بینک کو اتنی زیادہ آزادی دینے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ منی بجٹ یا ترمیمی بل 2021ء میں ایف بی آر کا رواں مالی سال ٹیکس وصولی کا ہدف جو 5829 ارب روپے تھا، کو بڑھا کر 6100 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ 

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق اور ان کی ٹیم کی مسلسل شاندار کارکردگی سے رواں مالی سال کے پہلے 6 مہینے میں ایف بی آر نے 2920 ارب روپے ٹیکس وصولی کیا ہے جو ہدف سے 287 ارب روپے یعنی 32 فیصد زیادہ ہے۔ نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ 2022ء معاشی طور پر ملک کیلئے کیسا ہو گا؟ منی بجٹ اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے پیش نظر میرے خیال میں 2022ء میں مزید مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی، قرضوں، کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارے، افراط زر، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا جس سے ایک غریب آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ زراعت کے شعبے کو خود کفیل بنائے تاکہ مقامی طورپرتیار کردہ کھانے پینے کی اشیا پر انحصار کیا جاسکے۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments