News

6/recent/ticker-posts

مہنگائی کا جن قابو سے باہر

مشیر خزانہ کی زیرِ صدارت پرائس کنٹرول کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کئے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ حکومت 4 کروڑ لوگوں کو اشیائے خور و نوش میں براہ راست سبسڈی دینے کیلئے ایک پروگرام شروع کر رہی ہے جس کے تحت گھی کی قیمت میں 50 روپے فی کلو کمی کی جائے گی، چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو جبکہ آٹا 55 روپے فی کلو فراہم کیا جائے گا تاہم یہ سبسڈی یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے دی جائے گی۔ موجودہ حکومت کے اعلانات، بیانات اور دعوؤں کے حوالے سے ریکارڈ دیکھتے ہوئے کوئی بھی شخص حکومتی بیانیے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں حالانکہ یہی عوام تھے جنہوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کامیاب کرایا۔ مگر آج 3 سال گزرنے کے بعد وزیر اعظم کی کوئی تقریر سن لیں یا کسی حکومتی وزیر مشیر کے بیان اٹھا کر دیکھ لیں وہ اپنی کارکردگی تو نہیں بتاتے مگر یہ ضرور بتاتے رہتے ہیں کہ سابق حکمران چور تھے، قومی خزانے کی لوٹ مار کی گئی، ملک میں مافیا مضبوط ہے ہمارا مقابلہ مافیا کے ساتھ ہے۔ 

کاش کہ آج 3 سال بعد وہ عوام کو بتا رہے ہوتے کہ چینی اسکینڈل میں ملوث اتنے چوروں کو سزا ہو چکی ہے، آٹے بحران کے ذمہ دار اتنے لوگ جیل میں ہیں، کرپشن میں ملوث اتنے لوگ کال کوٹھری میں ہیں اور اتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا چکی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کرپشن کے کیسز کے اکثر ملزم یا تو ضمانتوں پر ہیں یا پھر کمزور کیسز کی وجہ سے با عزت بری ہو چکے ہیں جبکہ آٹا چینی اسکینڈل میں ملوث لوگوں کی انکوائریاں ہی ٹھپ ہو چکی ہیں۔ کہتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں رائج آمرانہ جمہوریت میں طاقت کا یہ سرچشمہ بالکل سوکھ چکا ہے یہاں اب کمزوری اور بے بسی کی دھول اڑ رہی ہے ایسے میں عوام کا کسی قسم کی طاقت اور قوت سے کوئی تعلق نہیں مگر اس کے باوجود ہمارے وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ عوام کی قوت خرید بڑھ گئی ہے پچھلے دنوں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور پھر ملک میں خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ اگر مہنگائی بڑھی ہے تو تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ حالیہ دنوں میں گورنرا سٹیٹ بینک نے بھی مہنگائی کا اعتراف کرنے کے باوجود قوت خرید میں اضافے کی بات کی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ عوام کے پاس تو خرید کی قوت ہی نہیں تو وہ بڑھ کیسے گئی؟ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں ہر حکومت میں وزیروں، مشیروں کی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے ہر اقدام کا دفاع کریں اور اس کے حق میں جواز پیش کریں۔ سچ پوچھیں تو ہمیں آج تک ایسا عام آدمی نہیں ملا جو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے متاثر نہ ہوتا ہو یا پھر اس کی قوت خرید بڑھ گئی ہو ۔ عام آدمی کی حالتِ زار کا اندازہ لگانا ہو تو آٹے کیلئے مارے مارے پھرنے والے اس غریب سے پوچھیں جس کیلئے 1200 روپے دے کر بھی آٹے کا تھیلا خریدنا مشکل ہے اگر آٹا خرید بھی لیں تو گھی خریدنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر چینی تو اب عیاشی کے زمرے میں آتی ہے۔ حالانکہ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم کہا کرتے تھے کہ جس ملک میں مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جائیں اس ملک کے حکمران چور ہیں مگر اب بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بعد یہ بات سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ حکمران چور ہیں یا اپوزیشن چور ہے۔ 

عمران خان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں وہ مسلسل عوام کو بتا رہے ہیں کہ سابقہ حکمران چور تھے حالانکہ اقتدار کے 3 سال گزرنے کے بعد آج انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ کتنے چوروں کو سزا مل چکی اور کتنی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جا چکی۔جہاں تک قوتِ خرید کا تعلق ہے حکمرانوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اعداد و شمار کی بنیاد پر نہ تو ترقی کا گراف دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی غربت کو جانچا جا سکتا ہے کیونکہ اصل حقیقت اعداد و شمار سے نہیں بلکہ حالتِ زار سے دیکھی جاتی ہے مگر اس کیلئے سب اچھا کی عینک اتار کر دیکھنا پڑتا ہے گو کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کیا مگر پرائیویٹ ملازمین اور عام محنت کشوں کی آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا اور پھر جس تناسب سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے، اس سے سفید پوش لوگوں کی قوت خرید کیسے بڑھ سکتی ہے؟ حکومت پناہ گاہوں کا تجربہ کر چکی ہے۔ اب مہنگائی ختم کرنے کا تجربہ کرے تاکہ عوام کے لئے جینا آسان ہو۔ 

ریاست ِمدینہ کے خوش نما نعرے لگانے والوں کو ریاستِ مدینہ کے خد وخال کا مطالعہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ریاست ِمدینہ میں غریب و امیر کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ چند چیزوں پر مقتدرہ کا قبضہ ہواور غریب ان چیزوں کے حصول کیلئے ایڑیاں رگڑتا پھرتا ہو۔ ریاست مدینہ میں سب سے زیادہ غریب کی شنوائی ہوتی تھی اور یہاں سب سے زیادہ غریب کی رسوائی ہوتی ہے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سارا دن کما کر شام کو اگر دکان پر ایک وقت کی روٹی کا انتظام کرنے جائیں اور گھر میں 7 آٹھ افراد کا ساتھ ہو تو غریب آدمی مہنگی اشیاء دیکھ کر اپنی خواہشات کی قبر کھود کر بہت سے ارمانوں کو اسی میں دفن کر دیتا ہے جس طرح سے حکومت توانائی کے نرخوں میں اضافہ کر رہی ہے، آنے والے وقت میں عوام کو مہنگائی کا یہ اژدھام نگل جائے گا اور حکومت وقت کے لئے اس کو روکنا مشکل ہو جائے گا اور ہمیں تشویش ہے کہ کہیں ملک میں حالات لبنان جیسے نہ ہوجائیں؟

خلیل احمد نینی تا ل والا 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments