News

6/recent/ticker-posts

’’ویکسین ناکام؟‘‘ اور چند سوالات

دنیا کے ایسے ممالک جہاں کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کی شرح دیگر ممالک سے زیادہ ہے، وہاں سے کورونا وائرس کے کیس دوبارہ بڑھنے کی خبریں آ رہی ہیں جس کی وجہ سے اُن ممالک میں کورونا وائرس سے بچائو کے لئے دوبارہ پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اِن ممالک میں بیشتر ایسے ملک شامل ہیں جن کے شہریوں کو زیادہ تر چینی ویکسین لگائی گئی تھی لیکن اِس فہرست میں اسرائیل بھی شامل ہے جس کی 60 فیصد آبادی کو Pfizer ویکسین لگائی گئی ہے، جسے چینی ویکسین سے زیادہ مؤثر تصور کیا جاتا ہے۔ اِس صورتحال کے بعد اکثر افراد یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید یہ ویکسین ناکام ہو گئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ دراصل کوئی بھی ویکسین ہمیں مکمل طور پر کورونا وائرس سے نہیں بچا سکتی لیکن یہی ویکسینز اِس بیماری کی سنگینی اور اِس سے ہونے والی اموات میں واضح کمی لائی ہیں۔ 

جن ممالک میں ویکسین لگوانے کے بعد بھی کورونا وائرس کے کیس سامنے آرہے ہیں اور متاثرہ افراد اسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں یا لقمۂ اجل بن رہے ہیں، وہاں یہ امکان موجود ہے کہ شاید کورونا سے متاثرہ افراد نے ابھی تک ویکسین کی دونوں خوراکیں نہ لی ہوں اور جن چند افراد کی کورونا ویکسین لگوانے کے بعد موت واقع ہوئی بھی ہے تو اُن کی عمرکافی زیادہ تھی یا وہ ویکسین لگوانے سے پہلے ہی کسی سنگین بیماری میں مبتلا تھے۔ اِن ممالک میں نئے سامنے آنے والے کورونا کیسوں میں اُن افراد کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے جنہوں نے ابھی تک ویکسین لگوائی ہی نہیں ہے۔ اُن ممالک سے آنے والا ڈیٹا بھی یہی بتا رہا ہے کہ ویکسین ناکام نہیں بلکہ کامیاب ہوئی ہے۔ میں اپنے اِس کالم میں ویکسین کے حوالے سے غلط فہمیاں دور کرنے اور اِس حوالے سے کچھ وضاحتیں آپ کی نذر کرنے کی کوشش کروں گا۔

کیا ویکسین لگوانے والے سب افراد، دو سال بعد مر جائیں گے؟
گزشتہ کافی دِنوں سے سوشل میڈیا ایپ واٹس ایپ پر ایک پیغام گردش کر رہا ہے کہ ایک نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ویکسین لگوانے والے سب افراد دو سال بعد مر جائیں گے۔ ویسے تو ایسے سازشی مفروضوں کا جواب دینا بنتا ہی نہیں ہے لیکن بےشمار لوگ چونکہ اِس سازش کا شکار ہو چکے ہیں اِس لئے اِس کی وضاحت دینا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر مونٹیگنیئر نے یہ نہیں کہا کہ ویکسین لگوانے والے دو سال بعد مر جائیں گے بلکہ یہ کہا ہے کہ ویکسین کے اثرات دو سے تین سال بعد سامنے آئیں گے۔ اِس لئے یہ سازش یہیں ناکام ہو جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر مونٹیگنیئر کی عمر اِس وقت 88 برس ہو چکی ہے، وہ گزشتہ کافی عرصے سے حقیقت کے برعکس باتیں کر رہے ہیں۔

سنہ 2017 میں، جبکہ کورونا وائرس کا نام تک نہیں سنا گیا تھا، دنیا کے 106 ماہر سائنسدانوں نے ایک کھلا خط لکھا تھا کہ ڈاکٹر مونٹیگنیئر جو باتیں کرتے ہیں، اُن کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی وہ درست ہیں۔ اُنہوں نے اِس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر مونٹیگنیئر اپنے نوبل انعام کو خطرناک تھیوریاں پیش کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ اُن کی طرف سے پیش کی جانے والی اکثر تھیوریاں اُن کے شعبہ سے غیر متعلقہ ہیں۔ دنیا کے سارے سائنسدان ایک طرف ہیں اور ڈاکٹر مونٹیگنیئر جیسے سازشی تھیوریاں بنانے والے سائنسدان ایک طرف۔ سائنس چونکہ ایک مشاورتی عمل ہے اِس لئے وہ لاکھوں سائنسدان جو کورونا ویکسین کو محفوظ مانتے ہیں، ہمیں اُن کی بات سننی چاہئے۔ دنیا بھر میں مختلف بیماریوں سے بچائو کے لئے کئی طرح کی ویکسینز برسوں سے استعمال ہوتی آ رہی ہیں اور مؤثر بھی ہیں۔ اِسی طرح کورونا کی ویکسین بھی محفوظ اور مؤثر ہے۔

کون سی ویکسین بہتر ہے؟
کورونا ویکسین کے حوالے سے ایک اور بڑا مسئلہ برانڈ کا بھی ہے۔ Pfizer اور موڈیرنا کی ویکسین کو باقی سب سے بہتر تصور کیا جاتا ہے اور چینی ویکسین کے حوالے سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ پھر اِن ویکسینز کی افادیت پر بھی بات ہوتی ہے کہ فلاں کی افادیت زیادہ ہے اور فلاں کی کم۔ تمام ویکسینز مختلف حالات اور اوقات میں تحقیق کے مراحل سے گزری ہیں، اِس لئے اُن کی افادیت کے حوالے سے کوئی مستند رائے قائم کرنا مشکل ہے لیکن تمام ویکسینز کے حوالے سے ایک بات درست ہے کہ یہ بیماری کی سنگینی اور اموات کی شرح کو کم کرتی ہیں۔ ماہرین کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ ہر وہ ویکسین بہتر ہے جو آپ کو جلد از جلد میسر آ سکتی ہے۔

کچھ ممالک نے جو مخصوص ویکسین کی شرط رکھنا شروع کر دی ہے، وہ غلط ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کا اِس حوالے سے کہنا ہے کہ تمام ویکسینز کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ پاکستان میں زیادہ تعداد میں لگنے والی دونوں ویکسینز سائنو فارم اور سائنو ویک کو عالمی ادارۂ صحت تسلیم کرتا ہے۔ مستقبل قریب میں جب اِن ویکسینز کی وجہ سے کورونا کی صورتحال بہتر ہو گی تو ویکسین کے حوالے سے موجود برانڈ کا مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں باقی بیماریوں بشمول پولیو اور ہیپاٹائٹس کی جو ویکسین لگتی ہیں اُن کے برانڈ کے حوالے سے کوئی نہیں پوچھتا، یہی برتائو کورونا ویکسین کے حوالے سے بھی دکھانا چاہئے۔

ہرڈ امیونٹی کب آئے گی؟
ہرڈ امیونٹی تب آتی ہے، جب کسی مخصوص بیماری کے خلاف اِتنے لوگوں کو قوتِ مدافعت حاصل ہو جائے کہ وہ بیماری مزید نہ پھیل سکے۔ وباء پھیلنے کے ابتدائی دِنوں میں لگ رہا تھا کہ ہرڈ امیونٹی جلد آ جائے گی لیکن کورونا وائرس کی زیادہ آسانی اور تیزی سے پھیلنے والی اقسام بالخصوص ڈیلٹا (انڈین) ویریئنٹ نے اِسے مشکل بنا دیا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بیماری کا شکار ہونے سے قوتِ مدافعت اُتنی بہتر نہیں ہوتی جتنی ویکسین لگوانے سے ہوتی ہے، اِس لئے ویکسین لگوانا ضروری ہے۔ پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ اگر 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگ گئی تو ہرڈ امیونٹی آجائے گی لیکن اب ڈیلٹا (انڈین) ویریئنٹ آنے کے بعد یہ شرح 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ 

اِس بیماری سے نجات کے لئے ہمیں 90 فیصد آبادی کو ویکسین لگوانی پڑے گی جس کے لئے ہمیں ابھی سے انتظام کر لینا چاہئے۔ پاکستان میں ویکسین لگوانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ حکومت کی ابھی تک کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ صرف 18 سال سے زائد عمر افراد کو ویکسین لگے گی جبکہ اکثر ممالک 12 سال سے زائد عمر شہریوں کو بھی ویکسین لگا رہے ہیں اور وہاں ستمبر تک 2 سال سے زائد عمر بچوں کو بھی ویکسین لگنا شروع ہو جائے گی۔ اب ہمیں کورونا کے ساتھ ہی جینا ہو گا۔ اِس صورتحال میں کورونا ویکسین ہی ہماری جان بچا سکتی ہے اور بچا بھی رہی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اِس ضمن میں ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرتے ہوئے جلد از جلد ویکسین لگوائیں۔

علی معین نوازش

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments