News

6/recent/ticker-posts

افغانستان خانہ جنگی کی راہ پر

افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے ساتھ ساتھ خدشات اور اندیشوں کے عین مطابق طالبان اور افغان فوج کے درمیان جنگ میں شدت بڑھتی جارہی ہے۔امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی ملکوں کی حملہ آور افواج کے خلاف بیس سال تک سخت جان مزاحمت کرنے اور ناقابل شکست ثابت ہونے والے طالبان کے حوصلے فطری طور پر بہت بلند ہیں اور ملک بھر میں ان کی پیش قدمی کی رفتار بہت تیز ہے تاہم اشرف غنی حکومت کا دعویٰ ہے کہ سرکاری فوج بھی طالبان کو بھاری جانی نقصان پہنچا رہی ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تمام بڑے شہروں کا محاصرہ کر لیا ہے جبکہ افغان حکومت سرکاری فوج کے ہاتھوں طالبان کو پہنچنے والا جانی نقصان تین سو کے قریب بتارہی ہے۔

امریکا طالبان معاہدے کی رو سے امریکی افواج کی واپسی کی تاریخ سے پہلے موجودہ افغان حکومت میں شامل تمام افغان گروپوں اور طالبان کو جنگ بندی کر کے پرامن مذاکرات کے ذریعے ملک کے آئندہ نظام کی صورت گری کرنی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکا‘ بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ شروع کئی بار ہوا لیکن کامیابی سے جاری نہ رہ سکا جبکہ صدر ٹرمپ کے بعد جوبائیڈن انتظامیہ نے بھی اپنی افواج کی واپسی کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے طے کیا کہ رواں سال گیارہ ستمبر سے پہلے افغانستان یعنی اُس ملک سے تمام امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے جس پرجارج بش حکومت نے اس الزام میں فوج کشی کی تھی کہ اس کی پناہ میں موجود ایک شخص مبینہ طور پر نائن الیون حملوں کا ذمہ دار ہے۔

یہ حقائق ریکارڈ پر موجود ہیں کہ یہ فوج کشی اس امر کے باوجود کی گئی کہ اس وقت افغانستان میں قائم طالبان حکومت ٹھوس شواہد کی فراہمی کی صورت میں مطلوبہ شخص کو مقدمہ چلانے کے لیے کسی عالمی عدالت کے سپرد کرنے پر عَلانیہ آمادگی ظاہر کر چکی تھی۔ متعدد انصاف پسند مغربی تجزیہ کاروں نے بھی محض ایک شخص سے انتقام کی خاطر ایک پوری قوم کو جنگ کے شعلوں میں جھونک دینے کو عدل و انصاف کے منافی قرار دیا تھا۔ تاہم بش انتظامیہ اپنے فیصلے پر قائم رہی اور اس کے نتیجے میں بیس سال کی طویل مدت تک ایک ایسی جنگ جاری رہی جس میں بہت بڑی تعداد میں دو طرفہ جانی نقصان اور کھربوں ڈالر کی زیاں کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کا کہنا ہے کہ ’’امریکی صدر کو طویل عرصے سے احساس ہے کہ افغان جنگ کو طاقت کے ذریعے نہیں جیتا جاسکتا۔‘‘

سوویت یونین کی افغانستان میں شکست کے بعد یہ حقیقت ایک بار پھر پوری طرح واضح ہو گئی تھی کہ افغانستان اس دور میں بھی اپنی صدیوں پرانی روایت کے مطابق بادشاہتوں کا قبرستان ثابت ہونے کی پوری اہلیت رکھتا ہے ، لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں لیتا۔ بہرکیف اب جبکہ امریکا بھی سوویت یونین کی طرح افغانستان میں کسی سیاسی بندوبست کے بغیر واپس جارہا ہے، اصل توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس جنگ زدہ قوم کو مزید خوں ریزی سے بچایا کس طرح جائے۔ صدر جو بائیڈن کے یہ دِلاسے کہ ’’امریکی افواج افغان حکومت اور افغان فورسز کو ضرورت پڑنے پر مدد فراہم کریں گی‘‘ کتنے حقیقت پسندانہ اور قابل عمل ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ان حالات میں اپنے ملک کو مزید تباہی سے بچانے کا نسخہ فی الحقیقت صرف متحارب افغان گروپوں کے پاس ہے۔ 

خانہ جنگی بڑھی تو خدشہ ہے کہ ایک نیا انسانی المیہ جنم لے گا اور قتل و خون کے علاوہ لاکھوں افغانوں کو ایک بار پھر ہجرت کرنا ہو گی۔ پاکستان بوجوہ اب ماضی کی طرح اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہے لہٰذا مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ متحارب افغان گروپ جنگ کے میدان کے بجائے مذاکرات کی میز پر جلد از جلد اپنے معاملات طے کریں اور خانہ جنگی کی راہ پر مزید آگے بڑھنے سے بہرصورت گریز کریں۔

 بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments