News

6/recent/ticker-posts

نظریہ ضرورت اور ہمارا سیاسی مستقبل

پاکستان کی سیاست میں جب تک ’’ نظریۂ ضرورت‘ رہے گا تب تک این آر او بھی رہے گا۔ دوبار امید ہوئی کہ شاید یہ ضرورت کا نظریہ دفن ہو جائے مگر حالات نے ثابت کیا کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہتا ہے۔ اس ’ نظریے‘ نے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ پر منفی اثرات مرتب کیے بلکہ سب سے زیادہ نقصان جمہوریت کو پہنچایا جب آئین کے محافظوں نے خود آئین کو روند ڈالا۔ ایک بار 1970 میں عاصمہ جیلانی کیس کے فیصلے سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب کبھی مارشل لا نہیں لگے گا مگر 5 جولائی،1977 اور پھر 12 اکتوبر 1999 کے غیر آئینی اقدامات کو جس طرح آئینی تحفظ حاصل ہوا اس نے ایسے منفی رجحانات کو جنم دیا جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔ پاکستان میں جسٹس منیر کے لگائے ہوئے اسی پودے نے آگے چل کر ’ این آر او ‘ کو جنم دیا۔ آمروں کو اگر نظریہ ضرورت نے طاقتور بنایا تو انہوں نے اس کو اپنا ہتھیار بنا کر سیاست میں غیر جماعتی کاروباری سیاست اور این آر او جیسے نظریات کو جنم دیا ۔

ہماری 75 سالہ تاریخ کا بدترین ’’ این آر او ‘ دراصل یہی ایک نظریہ ہے جس نے ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک تمام فوجی ایڈونچرز کو جائز اور درست قرار دیا۔ لہٰذا ہماری موجودہ سیاسی نسل یا یوں سمجھیں کہ آئندہ آنے والی سیاسی قیادت کو بھی انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا ورنہ اگر ہماری عدالتیں 5 جولائی،77 اور 12 اکتوبر کی رات بھی کھل جاتیں تو شاید ہمیں کوئی سیاسی سمت مل جاتی۔ آج ہماری سیاسی بحث کا موضوع وزیراعظم (سابقہ یا موجودہ) کی مبینہ’ آڈیو لیک‘ ہیں جس سے بقول بہت سے مبصرین خود وزیراعظم ہائوس کی سیکورٹی پر سوالات اٹھ گئے ہیں مگر آج سے 17 سال پہلے آج ہی کے دن تقریباً شام کے وقت چند اعلیٰ فوجی افسران آئے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو ’’ کان سے پکڑ کر‘ بے دخل کر دیا اس وقت نہ ملک میں مارشل لا لگا تھا نہ اسمبلی ٹوٹی تھی۔ بعد میں دو سال بعد اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ کی مہر تصدیق ثبت کر کے ’جائز و آئینی‘ قرار دے دیا گیا اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو پہلے ملزم، پھر مجرم اور پھر این آر او دے کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا تاکہ اقتدار چلتا رہے آمروں کا، ایسا ہی کچھ 1981 میں بیگم نصرت بھٹو کیس میں ہوا۔

ان فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست دفن کر دی گئی اور ضرورت کے نظریے کو فروغ ملا۔ بدقسمتی سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے اقدامات کواس وقت کی حکومت کے سیاسی مخالفین نے نہ صرف ویلکم کیا بلکہ مٹھائیاں بھی بانٹیں۔ میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان، آصف علی زرداری، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی، بلاول بھٹو اور مریم نواز سیاسی طور پر انہی 45 برسوں میں سامنے آئے۔ ان میں کچھ دوسرے سیاسی اکابر کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے مگر کم وبیش آج کی سیاست انہی کرداروں کے گرد گھومتی نظر آرہی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی زرداری صاحب کے سپرد ہوئی اور اب پچھلے دنوں میاں نواز شریف کی لندن میں اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس سے اس تاثر نے زور پکڑا کہ مسلم لیگ (ن) کی آئندہ قیادت کس کے سپرد ہونے جارہی ہے جبکہ پی پی پی میں اب بلاول بھٹو ہی آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔

ان دو خاندانوں کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج ایک 70 سالہ مگر انتہائی فٹ عمران خان کا ہے۔ مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ اگر خاندان سیاست میں نہیں تو پاکستان تحریک انصاف میں بہرحال عمران کے بعد ’ کون‘ کا سوال جنم لے رہا ہے کیونکہ دوسرے چیئرمین کی رونمائی نہیں ہوئی۔ سیاسی طور پر عمران آئندہ ہونے والے انتخابات چاہے وہ اپنے مقررہ وقت پر ہوں یا کچھ پہلے سب سے زیادہ مضبوط امیدوار وزرات عظمیٰ کے نظر آتے ہیں مگر یہ صورتحال آج سے ایک سال پہلے نہیں تھی جب مسلم لیگ (ن) پنجاب اور پی پی پی سندھ میں واضح طور پر آگے نظر آرہی تھی۔عدم اعتماد کی تحریک نے گویا عمران کو پانچ سال اور دے دیے ہیں۔ اب اگر کوئی غیر معمولی حالات ہو جائیں تو الگ بات ہے مگر مسلم لیگ کو اپنے مضبوط قلعہ پنجاب میں تخت پنجاب اور مرکز میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خود پارٹی کے اندر بھی ابھی ’ رسہ کشی ‘ نے تیز ہونا ہے۔

میاں نواز شریف نے حال ہی میں ہونے والی میڈیا ٹاک میں کچھ بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں جن کا گہرا تعلق 2016 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس انداز میں ’’ پانامہ پیپرز‘ کیس آگے بڑھا اور پہلے سپریم کورٹ سے تاحیات نااہلی ہوئی اور پھر احتساب عدالت سے سزا اس نے کئی سوالات کو جنم دیا مگر ’ پانامہ پیپرز ‘ میں اپنے بچوں کے نام آنے کے سوال کا جواب تو بہرحال ان کو ہی دینا تھا۔ میرے سوال کا تعلق 2016 کے بعد کی سیاست سے نہیں کیونکہ عدالتی فیصلوں اور نااہلی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا سیاسی قلعہ مضبوط رہا۔ میاں صاحب سے میرے سوال کا تعلق 12 اکتوبر 1999 کے بعد ہونے والے اس ’’ معاہدے ‘ سے ہے جس کے تحت وہ اپنے اہل خانہ سمیت 10 سال سیاست کو خیر باد کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور سزا کے لیے جاوید ہاشمی کو چھوڑ گئے۔

 شاید اس وقت اگر وہ سیاسی طور پر تھوڑے سے بھٹو بن جاتے تو آج کی سیاست مختلف ہوتی۔ مطلب یہ نہیں کہ اللہ نہ کرے آپ پھانسی چڑھ جاتے مگر کم ازکم ایسے NRO سے تو بہتر تھا یہاں جیل میں وقت گزارتے، کلثوم نواز صاحبہ مرحومہ نے جو ایک غیر سیاسی خاتون تھیں جدوجہد کی بنیاد رکھ دی تھی۔ وہ بے شک ایک بہادر خاتون تھیں ان سے چند ملاقاتیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ میاں صاحب سے دوسرا سوال یہ کہ آپ نے تین سال پہلے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے مگر آپ ’علاج ‘ کی غرض سے باہر گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اگر آپ چند ماہ بعد ہی واپس آجاتے اور عدالتوں کا سامنا کرتے تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی، اب اس کو میں اور کیا کہوں سوائے این آر او کے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بہت نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ اگر ’نظریہ ضرورت‘ نے PCO کو جنم دیا اور یوں بہت سے اعلیٰ ترین جج جو چیف جسٹس بن سکتے تھے حلف لینے سے انکار پر نہ بنے مگر تاریخ آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو یاد رکھتی ہے۔ ’نظریہ ضرورت‘ اور این آر او ہی اگر ہمارا سیاسی مستقبل ہیں تو دراصل ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔ باقی ضرورت کے نظریہ کی سیاست تو چلتی رہے گی اور نئے نئے کردارسامنے آتے رہیں گے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کہ پار اترا تو میں نے دیکھا

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments