News

6/recent/ticker-posts

عوام کو بھی کچھ کرنا چاہیے یا نہیں؟

مہنگائی مہنگائی کا شور ہر طرف ہے۔ وجہ سب کی نظر میں حکومت وقت کی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرنا ہے۔ لیکن کیا یہ کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے؟ کیا ہر مسئلہ کا الزام حکومت وقت ( کسی ایک حکومت کی طرف اشارہ نہیں ہے ) پہ ڈال دینے سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے؟ یا عوام کو بھی کچھ کرنا چاہیے یا نہیں؟ کیا عوام کا کام صرف شور مچانا ہے، سوشل میڈیا پہ خوب متحرک رہنا ہے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ عملی طور پر سب کیا کر رہے ہیں؟ ملکی معیشت میں یہ کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ملکی پیداوار بڑھانے میں ان کا کتنا حصہ ہے؟ روزگار کے کتنے مواقع فراہم کئے؟ ملکی افراط زر ( inflation ) کو منضبط (control ) کرنے کی کبھی کوشش کی؟ ملکی تجارتی توازن (trade balance) حاصل کرنے میں ان کی کاوشوں کا کوئی ذکر؟ ملکی خزانے میں ٹیکس حصولی ( tax revenue ) کا تخمینہ ( estimate ) لگانے کے بعد کیا کبھی پورا ہونے میں کبھی کامیاب ہوا ہو عوام کی بدولت؟ یقینا، یقینا نہیں تو کیا عوام نام ہے شکائتیں کرنے کا، ملکی پیداوار میں اضافہ نہ کرنے کا ؟ 

ہر کسی کو یہاں نوکری چاہیے وہ بھی بہت اعلٰی، جس میں کام کم، آرام زیادہ، پیسے بے انتہا اور کوئی پوچھ گچھ یعنی کوئی نگرانی نہ ہو۔ ورنہ کام کا ماحول خراب گردانہ جاتا ہے۔ یہاں کوئی آجر ( entrepreneur) بننے کو تیار نہیں، کوئی چیز نئے انداز میں مارکیٹ میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ ہر کسی کو دنیا بھر میں بننے والی ہر چیز چاہیے لیکن خود کوئی چیز بنا کر بیچنے کو کوئی تیار نہیں۔ نتیجہ کیا نکل رہا ہے کہ ہماری (imports ) درآمدات مسلسل بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں اور برآمدات (exports) کم ہوتی ہی چلی جا رہی ہیں ایسے میں جب ہم بیرونی ممالک سے سامان یعنی درآمدات کی ادائیگیوں کے بین الاقوامی کرنسی ($) طلب کرتے ہیں تو۔ ہمارے روپے کی قدر اور کم ہو جاتی جب کہ دوسری طرف ہمیں برآمدات کے نتیجے میں ملنے والی رقم بہت ہی کم ہوتی ہے ایسے میں تجارتی توازن کو برقرار رکھنا تو دور کی بات اس میں ہونے والے خسارے ( deficit) کے حجم (size) کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے اور یہ مسلسل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ 

لیکن عوام وخواص غیر ضروری اخراجات میں کمی کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اتنا مہنگا پیٹرول ہونے کے باوجود کیا انٹر بس سروسز میں کچھ کمی آئی، سڑکوں پہ ٹریفک کچھ کم ہوا، فراٹے پھرتی موٹر سائیکلیں کچھ کم ہوئیں، imported items کی مانگ میں خاطر خواہ کمی آئی، انٹر نیشنل سفر پہ جانے والوں نے اپنا پروگرام موخر کیا؟ نہیں! قطعا نہیں! ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نہ عوام کچھ کرنے کو تیار ہے نہ حکومت وقت۔ عوام کو سب کچھ جھولی میں چاہیے بغیر محنت کئے اور حکومت وقت کو اپنا "وقت" پورا کرنا ہوتا ہے تو جدوجہد کی کیا ضرورت! جب دونوں کی سوچ ایک ہو، دونوں ہی سہل پسند ہوں، تو پھر حالات (تبدیلی، کا لفظ نہیں لکھا ، وجہ آپ جانتے ہیں) کیسے بہتر ہوں گے۔ جو حکومت بھی آتی ہے روزگار کے نام پر عجیب و غریب منصوبے لاتی ہے جس میں کبھی: یلو کیب اسکیم کے نام پر ڈرائیورز تیار کئے جاتے ہیں، کبھی صدارتی روزگار اسکیم کے تحت لوگوں کو رکشہ ڈرائیور بنایا جاتا ہے، پھر "چنگچی" رکشہ کے نام پر "انتہائی جدید، تیز ترین اور اعلی تربیت یافتہ ڈرائیورز کے پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے۔

متواترمختلف حکومتوں کی طرف سے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی شاندار کارکردگی کے بعد اب یہ حال ہے کہ اب ہر دوسرا نوجوان یہاں rider بنا ہوا چاہے کھانا پہچانے کا رائڈر ہو یا کسی برینڈ کا فری ڈلیوری کا رائیڈر، ورنہ دوسری طرف uber, careem، indriver SWVL, bykea, airlift اور اس جیسی کئی اور ڈرائیورز تیار کرنے کی کمپنیاں وجود میں آرہی ہیں۔ کیا ترقی کی یہی معراج ہے؟ یا ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہی! ڈرائیوری کے علاوہ کام اور بھی کیوں کہ " تلاش ان نوجوان کی ہے ستاروں پہ ڈالتے ہیں جو کمند"۔

سید منہاج الرب

بشکریہ روزنامہ جنگ
 


Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments