News

6/recent/ticker-posts

آئی ایم ایف کی سخت شرائط

بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہوئے بعض اقدامات تجویز کئے ہیں جن پر عملدرآمد سے اس کے خیال میں ملک کی معاشی شرح نمو 5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ اس حوالے سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات، خصوصاً جن کا تعلق گورننس اور انسداد منی لانڈرنگ جیسے معاملات سے ہے، میں مزید تاخیر نہ کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایسا نہ کرنے سے معاشی بحالی کی رفتار کم ہونے سمیت بیرونی فنڈنگ اور غیرملکی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف جس نے حال ہی میں ایک ارب ڈالر سے زائد قرضے کی قسط جاری کر دی ہے، کی ایک تفصیلی رپورٹ میں جہاں ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے وہاں حکومت کیلئے مستقبل کا معاشی لائحہ عمل بھی تجویز کرتے ہوئے بعض ایسے مطالبات کیے گئے ہیں جو مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہوں گے۔ 

رپورٹ میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے۔ انکم ٹیکس استثنا ختم کیا جائے۔ ذاتی انکم ٹیکس کے حوالے سے آئندہ بجٹ میں ٹیکس دہندگان کیلئے خصوصی ٹیکس پروسیجر متعارف کرایا جائے۔ ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ تعمیراتی اور ہائوسنگ سیکٹر کی ترقی کیلئے اسٹرٹیجی پیپر مرتب کیا جائے۔ انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کے حوالے سے فیٹف کے باقی نکات پر عملدرآمد مکمل کیا جائے تاکہ گرے لسٹ سے نکلا جا سکے۔ گیس کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں۔ بجلی کے شعبے میں سبسڈی میں مزید کمی کی جائے۔ غریب لوگوں کو سبسڈی دینی ہے تو احساس پروگرام کے ذریعے دی جائے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں پاکستان کے اگلے بجٹ میں 430 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کی اطلاع دی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگلے سال کا ترقیاتی بجٹ بھی 627 ارب روپے سے کم کر کے 554 ارب روپے کر دیا جائے گا۔ رواں مالی سال کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ کر 12 ارب 99 کروڑ ڈالر متوقع ہے جو جی ڈی پی کے 4 فیصد کے مساوی ہو گا۔ ایف بی آر نے انکم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ 

ترجمان وزارت خزانہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوئی بری بات نہیں۔ آئی ایم ایف نے مہنگائی کی شرح میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے اور کہا ہے کہ آئندہ 12 ماہ میں یہ شرح 9 سے 12 فیصد تک رہے گی۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ درآمدات میں اضافہ ہو گا اور ترسیلات زر میں بھی کسی قدر کمی آئے گی۔ افغانستان کی صورتحال، افغانوں کی نقل مکانی اور ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے خطرات کے منفی اثرات بھی ملکی معیشت پر پڑ سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے معاشی تجزیے کے بعض پہلو حکومت کی معاشی ٹیم کیلئے توجہ طلب ہیں جیسا کہ افغانستان کی صورتحال وغیرہ، تاہم اضافی ٹیکسوں کا نفاذ، ٹیکس استثنا ختم کرنے اور بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے، ترقیاتی اخراجات کم کرنے جیسے مطالبات دراصل آئی ایم ایف کے قرضوں کے حصول کیلئے پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضے کے مترادف ہیں، آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر قرضے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ نصف قرضہ مل چکا ہے جبکہ نصف ابھی پاکستان کو ملنا باقی ہے۔ اس قرضے کی بہت سی کڑی شرائط حکومت نے پوری کر دی ہیں اور خدشہ ہے کہ باقی رقم کیلئے مزید شرائط منوائی جائیں گی۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کی اقتصادی خودمختاری کتنی محدود ہو جائے گی۔ اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو معاملے کے اس پہلو کو مدِنظر رکھ کر مستقبل کے فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ حکومت پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments