News

6/recent/ticker-posts

پارلیمان میں اپوزیشن کی ناکامیاں

عمران خان اِس وقت ’’اتحادی جماعتوں‘‘ کی بیساکھیوں کے محتاج بن چکے ہیں جبکہ ایوانِ بالا میں تاحال پی ٹی آئی کی حکومت اکثریت سے محروم ہے، اس لیے ایوانِ بالا میں اپوزیشن جب چاہتی ہے حکومتی بل کو روک لیتی ہے لیکن پارلیمان کے ایوانِ بالا کا المیہ ہے کہ اپوزیشن اکثریت میں ہونے کے باوجود کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پا رہی۔ اپوزیشن کی جماعتوں میں ایسے اراکین موجود ہیں جو ’’سیٹی‘‘ بجنے کے منتظر رہتے ہیں اور پھر جس بل کو وہ راستہ دینا چاہتے ہیں، ایوان سے کسی نہ کسی بہانے سے غائب ہو جاتے ہیں اور پھر اپنی ’’غیرحاضری‘‘ کی قیمت وصول کر لیتے ہیں۔ فروری 2021 کے انتخابات میں حکومتی حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف اپوزیشن منقسم ہو گئی بلکہ اس تقسیم کا حکومت بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ حکومت نے اپنے اراکین کی مدد سے اپنی مرضی کا ’’قائدِ حزبِ اختلاف‘‘ منتخب کروا کر اپوزیشن میں تقسیم کا جو بیج بویا تھا، اس کے تاحال اثرات موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ سینیٹ میں عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اپوزیشن کی ’’نالائقی‘‘ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے حکومت نے اقلیتی ووٹ ہونے کے باوجود سینیٹ سے متنازعہ بل کو منظور کرا لیا۔ یہ تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے 8 اراکین ایک انتہائی اہم بل کی منظوری کے وقت ایوان سے کیوں غیر حاضر رہے اور حکومت نے رات کے اندھیرے میں ’’گنتی‘‘ پوری ہونے کی اطلاعات پر ہنگامی بنیادوں پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کا ترمیمی بل سینیٹ کے ایجنڈے پر شامل کیا، حکومت کو اس بات کا علم تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی نور محمد کھوکھر کی رسمِ قل میں شرکت کے لیے ملتان گئے ہوئے ہیں اور وہ سینیٹ کے صبح 10 بجے ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کر پائیں گے۔ اگر سید یوسف رضا گیلانی کو رات گئے بل لانے کے بارے میں علم ہو گیا تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے وہ رات کو ہی ملتان سے اسلام آباد کے لیے کیوں روانہ نہیں ہوئے؟ ان کی نیت پر کوئی شک نہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے بل پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، ان کی ’’تساہل یا مصلحت پسندی‘‘ نے ان کے سیاسی کیریئر پر دھبہ لگا دیا۔ 

سید یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی کے درمیان کبھی گاڑھی چھنتی تھی جب سے دونوں کے الگ الگ سیاسی کیمپ ہو گئے تو شاہ محمود قریشی بھی ان پر وار کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ موقف ہے کہ انہیں ایجنڈے کی بروقت اطلاع نہیں ملی تھی جبکہ گیلانی کے آفس کو دو روز قبل معلومات مل گئی تھیں کہ اہم بل آرہا ہے۔ فواد چوہدری نے سید یوسف رضا گیلانی کا دفاع کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ ’’وہ ایک شریف آدمی ہیں، استعفیٰ تو بلاول کا بنتا ہے یا زرداری کا جن کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے اراکین ایوان میں نہیں آئے‘‘۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک سید یوسف رضا گیلانی پر طنز کے تیر چلانے باز نہ آئے اور انہیں ’’ہمت‘‘ کر کے ایوان میں آنے کا مشورہ دیتے رہے تو سینیٹر سعدیہ عباسی نے کھل کر سید یوسف رضا گیلانی کے موقف کی حمایت کر دی اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو ان کا استعفیٰ مسترد کرنے کا کہا۔

متنازعہ بل کی منظوری کے وقت قائد حزب اختلاف سید یوسف گیلانی سمیت حزب اختلاف کے 8 اور حکومت کے 4 اراکین ایوان میں غیرحاضر تھے، اے این پی کے عمر فاروق کانسی بل کی منظوری کے وقت ایوان سے باہر نکل گئے جبکہ دلاور خان نے حکومت کو ووٹ دیا، اس طرح حکومت اپنی حکمت عملی سے ایک ایسا بل منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی جسے اپوزیشن نے کسی صورت منظور نہ کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی ایوانِ بالا میں انتہائی جذباتی انداز میں قائدِ حزبِ اختلاف کے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا لیکن اپوزیشن نے اسے ’’عذر بد تر از گناہ‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ پارلیمان میں اپوزیشن پچھلے ساڑھے تین سال سے اہم ایشوز پر منقسم نظر آتی ہے۔ اپوزیشن اہم ایشوز پر ووٹنگ کے دوران سودے بازی سے گریز نہیں کرتی۔ اپوزیشن کا یہ المیہ ہے کہ اس کی صفوں میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو بظاہر اپنے آپ کو اپوزیشن کا رکن بتاتے ہیں لیکن جہاں حکومت کسی مشکل میں پھنستی ہے، مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔

حکومت سینیٹ اجلاس میں اپنی گنتی پوری نہ کر سکی تو بل پیش کرنے سے گریز کیا، جب گنتی پوری ہو گئی تو فوری طور پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ترمیمی بل 2022 پیش کر دیا۔ ایوانِ بالا کی تاریخ میں پہلی بار چیئرمین سینیٹ نے بل کے حق میں دو بار ووٹ دے کر حکومت کو مشکل سے نکالا جبکہ منظوری کا مرحلہ آیا تو اے این پی کے ایک رکن عمر فاروق نے ایوان سے باہر جا کر حکومت کے لیے آسانی پیدا کر دی۔ پی ٹی آئی کی ڈاکٹر زرقہ طبیعت کی خرابی کے باعث ایوان میں آکسیجن سلنڈر کے ساتھ آگئیں، اس اندازہ لگایا جا سکتا ہے حکومت بل منظور کرانے میں کس حد تک سنجیدہ تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور ہونے کی ذمہ داری مجھ پر عائد کرنا متعصبانہ رویہ ہے۔ دوسری طرف فواد چوہدری نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل کی سینیٹ سے منظوری میں تعاون کرنے پر سید یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کا شکر یہ ادا کیا۔ 

پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کا یہ المیہ ہے کہ اس میں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے چند اراکین ’’راولپنڈی‘‘ کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کے سامنے سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی بےبس نظر آتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم میں ناکامی میں بھی ان سینیٹرز کا رول نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہیں اور سے ہدایات لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی جو بظاہر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے لیکن وہ حکومت کی ’’بی ٹیم‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔

نواز رضا

بشکریہ روزنامہ جنگ


Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments