News

6/recent/ticker-posts

عالمی میڈیا، ترک اپوزیشن اور صدر ایردوان

اس وقت جب کہ ترکی میں مہنگائی اپنے پورے زوروں پر ہے اور افراطِ زر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 48 فیصد کے لگ بھگ ہے، عالمی میڈیا اور ترک اپوزیشن رہنمائوں نے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے صدر ایردوان کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں ترک رہنمائوں کو دو دہائیوں کے بعد پہلی بار اس بات کا یقین ہو رہا ہے کہ ترکی میں مہنگائی کی لہر کسی بھی وقت صدر ایردوان کو نگل سکتی ہے، اس خود فریبی میں مبتلا ہو کر ترکی کی چھ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کمال کلیچدار اولو ( ری پبلکن پیپلزپارٹی)، میرال آق شینر(گڈ پارٹی)، تیمل قارا مولا اولو (سعادت پارٹی) گل تیکن اوئسل (ڈیموکریٹ پارٹی)، علی بابا جان (دیوا پارٹی) اور احمد دائود اولو (فیوچر پارٹی) نے 12 فروری کو ایک گول میز کانفرنس میں شرکت کی اور آئندہ انتخابات میں متحدہ محاذ بناتے ہوئے نہ صرف صدر ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے بلکہ ان کے متعارف کردہ صدارتی نظام کا بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بوریا بستر گول کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان چھ سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں میں سے پانچ کا تعلق دائیں بازو سے ہے اور جن میں سے دو رہنما صدر ایردوان کے دستِ راست بھی رہ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک علی باباجان ہیں جو ایردوان دور میں پہلے وزیر خارجہ اور بعد میں وزیر خزانہ رہے (ایردوان کے پہلے دو ادوار میں ترک اقتصادیات کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور تیزی سے ترقی کرنے کا معمار انہیں ہی سمجھا جاتا ہے)۔ دوسرے ساتھی احمد داؤد اولو ہیں جو ابتدا میں ترکی کے وزیر خارجہ اور بعد میں ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ اپوزیشن رہنما یہ بات مگر بھول گئے ہیں کہ صدر ایردوان نے ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرے کی گرتی ہوئی قدر کو مزید گرنے سے نہ صرف روکنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ ترک لیرے کی قدرو قیمت اور ساکھ کو بحال کرنے کیلئے ایسا قدم اٹھایا ہے، جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنوری 2021 میں جہاں ڈالر کے مقابلے لیرا کی قدر 7.3 تھی وہیں سال کے آخر تک اس کی قدر 18 تک پہنچ گئی تھی اور ایردوان کی متعارف کردہ نئی پالیسی کے نتیجے میں اس میں گراوٹ آئی اور اب چند ماہ سے ترک لیرا 13.5 کے لگ بھگ مستحکم ہے۔ 

اس وقت ترکی دنیا میں چلی کے بعد سب سے تیز ترقی کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے اوراس کی ایکسپورٹس ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کر رہی ہیں، سیاحت کا شعبہ ایک بار پھر ملکی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے جبکہ ترک ڈرونز عالمی مارکیٹ میں نمبر ون سمجھے جا رہے ہیں اور ان کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتِ ترکی نے ترک لیرے کی قدرو قیمت کو مستحکم کرنے کے بعد ملک کے ریزرو میں اضافہ کرنے اور غیر ملکی قرضے پر انحصار کم کرنے کیلئے عوام کے پاس موجود سونے کے زیورات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترک وزیر خزانہ نور الدین نباتی کے مطابق اس وقت ترک باشندوں کے پاس 5 ہزار ٹن کے لگ بھگ سونا پڑا ہوا ہے۔ حکومتِ ترکی نے ان ذخائر کو استعمال کرنے کیلئے اپنے مقرر کردہ صراف کے پاس مخصوص مدت کیلئے سونا جمع کروانے اور اس پر حکومت کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ سونے کے زیورات پر مخصوص منافع دیے جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ (یہ منافع سونے یا رقم کی شکل میں ہو سکتا ہے ) اس سے عوام کو اپنے پاس پڑے بے مصرف سونے کے ان زیورات سے فائدہ تو پہنچے گا ہی بلکہ حکومت کے سونے کے ذخائر میں بھی زبردست اضافہ ہو جائے گا، جس سے ترک لیرے کو مستقل بنیادوں پر مستحکم رکھا جاسکے گا۔ اس مقصد کیلئے حکومت پہلے مرحلے میں 15 سو مقامات پر صرافوں کے مراکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 

علاوہ ازیں حکومت نے ملک میں ہوش ربا مہنگائی اور معیارِ زندگی کی زبوں حالی پر عوام کی جانب سے مظاہروں سے قبل ہی فوری طور پر اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر عائد آٹھ فیصد ’’ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘‘ کو کم کر کے ایک فیصد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس پر عمل درآمد بھی شروع کیا جاچکا ہے۔ صدر ایردوان دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ہم قوم کو مہنگائی تلے کچلنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ منافع خوروں نےاس ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی سات فیصد شرح سے زیادہ قیمتوں میں اضافہ کیا ہے لیکن حکومت ِ ترکی نے فوری اقدامات کرتے ہوئے ہیرا پھری کرنے والوں سمیت تمام منافع خوروں کو سخت سے سخت سزا دینا شروع کر دی ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 127 فیصد اضافے پر نظر ثانی کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اسے معقول شرح تک لے جانے کی خوشخبری سنائی ہے۔ 

جہاں تک افرطِ زر کی شرح کا تعلق ہے اس پر قابو پانے کیلئے بھی حکومتِ ترکی نےکئی ایک اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ اس وقت سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 48 فیصد کے لگ بھگ افراطِ زر کو چند ماہ کے اندر اندر اکائی کے ڈیجٹ تک لانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اگر صدر ایردوان نے جون 2023 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو انہیں افراطِ زر کی شرح کو لازمی طور پر سنگل ڈیجٹ پر لانا ہو گا۔ اگرچہ حکومت ِ ترکی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فیصد تک اضافہ کیا ہے لیکن یہ اضافہ کافی نہیں اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ صدر ایردوان جولائی میں ایک بار پھر تنخواہیں بڑھا کر سرکاری ملازمین کو خوش کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے تاکہ سرکاری ملازمین ان کو ووٹ دینے میں کسی تذبذب کا شکار نہ ہوں۔

ڈاکٹر فر قان حمید 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments