News

6/recent/ticker-posts

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل، عوام کب تک بے وقوف بنیں گے

کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دو آدمی پیدل سفر پر نکلے دونوں کے ہاتھ میں تھیلے تھے جس میں ضرورت کی اشیا اور کھانے پینے کا سامان رکھا ہوا تھا، ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے مشرق کی جانب، دونوں کا ٹاکرا کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہو گیا۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دوپہر ہو گئی دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ ہر ایک شخص اس انتظار میں تھا کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دسترخوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جاؤں۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ بڑی دیر کے بعد بادل ناخواستہ ایک نے تالاب کے قریب نل سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی اور جلدی سے پانی میں ڈبو کر روٹی کا ٹکڑا توشہ دان میں رکھ لیا۔ 

البتہ پانی غٹا غٹ پی گیا اور پھر سو گیا۔ اب دوسرے مائی کے لال کی باری تھی۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، روٹی نکالی اور اس انداز سے روٹی برتن کے اوپر پکڑی کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی سے پڑے۔ پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر اس شخص نے پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔ دونوں ایک دوسرے کا رویہ دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہمارے خیالات میں اتنی یکسانیت موجود ہے۔ جتنی دو بخیلوں کے خیالات میں ہو سکتی ہے دونوں اپنے اپنے تھیلے پکڑ کر ایک دوسرے کے مزید قریب آئے اور آپس میں تعارف ہوا، پھر سفر کا مقصد یہ نکل آیا کہ دونوں رشتہ کے تلاش میں نکلے ہیں، ایک اپنے بیٹے کے لیے اور دوسرا اپنی بیٹی کی خاطر۔ دونوں نے خودبخود فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ہم دونوں کے درمیان رشتہ بڑا مثالی رہے گا۔ 

چنانچہ ان میں سے ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک مکھی چوس کی بیٹی سے ہو گئی۔ اور یہاں سے کہاوت چلی کہ ’’ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے‘‘ یعنی ایک ہی طبیعت و نیچر کے افراد کا گروہ۔ اب آپ مذکورہ بالا مثال کو اپنے سیاسی منظرنامے میں فٹ کرنے کی کوشش کریں تو آپ پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ ہمارے تمام سیاستدانوں کے خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں میں ہم آہنگی ایک جیسی ہے۔ مطلب سب کی ’’طبیعت ‘‘یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنایا جائے۔ ماضی کو چھوڑیں تازہ مثال حاضر خدمت ہے جس میں سینیٹ میں پاس ہونے والے ’’اسٹیٹ بینک ترمیمی بل‘‘ کی ڈرامائی انداز میں منظوری سرفہرست ہے، یہ بل سینیٹ سے اپوزیشن کی اکثریت کے ہوتے ہوئے حکومت نے جس ڈرامائی انداز میں پاس کروایا اُس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ تو بالکل کسی فلم کا سین لگا کہ کس طرح اپوزیشن کے اراکین کو چند لمحوں کے لیے ’’غائب‘‘ کر دیا گیا اور پھر مطلب پورا ہونے پر سب واپس آگئے۔ اور ویسے بھی ماضی گواہ ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کی خوبی یہ ہے کہ ایسے مواقعے پر تعاون کرنے والے باآسانی میسر آ جاتے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ ہو، ایف اے ٹی ایف کا بل ہو یا اسٹیٹ بینک ترمیمی بل، پیپلز پارٹی نے ہر موقعے پر حکومت کا ساتھ دیا، جب کہ اسمبلی میں اس بل کی سب سے زیادہ مخالفت بھی پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کرتی رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپوزیشن کے آٹھ ارکان اجلاس میں موجود نہیں تھے ایک رکن کا عین ووٹنگ کے وقت ایوان سے باہر چلے جانا یقیناً ان کے ’’اعلیٰ سیاسی کردار‘‘ کو ظاہر کرتا ہے جب کہ سب سے زیادہ حیرت انگیز معاملہ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف‘ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید یوسف رضا گیلانی کی غیرحاضری کا ہے۔ انھوں نے اجلاس کی اطلاع تاخیر سے ملنے کا جو عذر پیش کیا ہے اسے خود ان کی پارٹی کے رہنما قمر زماں کائرہ نے بھی قبول نہیں کیا اور کہا ہے کہ گیلانی کو سینیٹ میں موجود ہونا چاہیے تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک اور عرفان صدیقی نے سینیٹ میں اپوزیشن کی شکست کا اصل سبب یوسف رضا گیلانی کی اجلاس میں عدم موجودگی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں ملک آئی ایم ایف کا غلام بن گیا ہے۔ بقول شاعر

اب غلاموں کے بھی غلام ہوئے
صاحب اقتدار تھے ہم تو

خیر اگر مذکورہ بل کی اہمیت کو دیکھا جائے تو یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ بل کو منظور نہیں ہونا چاہیے تھا کیوں کہ یہ ریاست کے مفاد میں نہیں تھا، پھر اس بل کے مطابق پاکستان کا ریاستی مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک خود مختار بینک میں تبدیل ہو جائے گا، چونکہ کسی بھی ریاست کا ایک مرکزی بینک ہوتا ہے، جس کا مکمل کنٹرول ریاست اور حکومت کے پاس ہوتا ہے، حکومت کے تمام اکاؤنٹس براہ راست یا کسی واسطے سے اسی بینک میں رکھے جاتے ہیں۔ بہرکیف اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کی منظوری اس لیے بھی شاید ضروری تھی کہ کل یعنی دو فروری کو آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر ملنا ہے جس کے لیے یہ شرط ضروری تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر سب کچھ Decided ہوتا ہے تو پھر عوام کے سامنے ’’نورا کشتی ‘‘ کیوں؟ سب کو سمجھ آ رہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کیا ڈراما کر رہی ہے؟ اپوزیشن کیوں اہم مواقعے پر الیکشن ہارتی ہے؟

حد تو یہ ہے کہ کیا عوام کو ان حکمرانوں اور کرتا دھرتاؤں نے بے وقوف سمجھ رکھا ہے کہ وہ عمران خان، نوازشریف، شہباز شریف، زرداری ، بلاول، مولانا فضل الرحمن یا کسی دوسرے رہنما کی خاطر آپس میں لڑلڑ کر مر جاتے ہیں، حالانکہ عوام کو تو اب سمجھ اور شعور آجانا چاہیے کہ یہ سب سیاستدان اور ان کے انویسٹرز اور نگران ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب دن میں نورا کشتیاں لڑتے ہیں، اور رات میں اکٹھے محفلیں سجاتے ہیں۔ عوام کو صرف بے وقوف بنا کر دونوں اطراف سے شدید قسم کی ہوائی فائرنگ ہو رہی ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ کیا اس ملک میں کوئی ڈھنگ کا کام کرنے والا سیاستدان یا انقلابی لیڈر نہیں آئے گا جو عوام کو بے وقوف بنانے کے بجائے اُن کا ساتھ دے۔ اُن کے بارے میں سوچے کیوں کہ موجودہ حکومت بھی پرانے لوگوں کی ڈگر پر چل رہی ہے تبھی تو حالات کو سدھارنے کے بجائے چور دروازے تلاش کرتی ہے اور پھر کامیاب ہونے پر وکٹری کا نشان بناتی ہے، اگر ایسا ہی عمل ہر ایک نے کرنا ہے تو یہ ہم میں By Nature فالٹ ہے جسے شاید ہی سدھارا جا سکے۔

علی احمد ڈھلوں  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments