News

6/recent/ticker-posts

پاکستان کے ناقابلِ برداشت قرضے

حال ہی میں حکومت کی جانب سے رواں مالی سال جولائی سے دسمبر 2021 کے اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں جس میں پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 9 ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے جو ملکی جی ڈی پی کے 4 فیصد ہدف کے مقابلے میں 5.7 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یاد رہے کہ 2019-20 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1.7 فیصد اور 2020-21 میں 0.6 فیصد تھا۔ ان 6 مہینوں میں ملکی ایکسپورٹ 18.65 ارب ڈالر جبکہ امپورٹ 41.66 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جس کی وجہ سے 6 مہینوں میں 23 ارب ڈالر تجارتی خسارہ ہوا جو گزشتہ سال 12.33 ارب ڈالر تھا۔ رواں مالی سال 2021-22 کے دوران پاکستان کو 23 ارب ڈالرکے قرضے ادا کرنے ہیں جس میں آنے والے 6 مہینوں میں 8.6 ارب ڈالرکی ادائیگیاں ہونی ہیں، 7.2 ارب ڈالر کا پرنسپل اور 1.4 ارب ڈالر کا سود شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDP کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو قرضوں میں بے تحاشہ اضافے پر وارننگ دی گئی ہے۔

کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے حکومت قرضوں پر قرضے لے رہی ہے جو ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت نے اگست 2018ء سے دسمبر 2021ء تک 42.7 ارب ڈالر کے قرضے لئے اور 32.7 ارب ڈالر کے قرضے واپس کئے۔ اس طرح حکومت نے گزشتہ 3 سال میں 10 ارب ڈالرکے اضافی قرضے لئے جس میں ایک ارب ڈالر کے بانڈز اور 4.3 ارب ڈالرز کمرشل بینکوں سے لئے گئے جس میں 971 ملین ڈالر SCB لندن، 355 ملین ڈالر سوئس بینک، یو بی ایل، الائیڈ بینک، ایک ارب ڈالر چائنا ڈویلپمنٹ بینک، 800 ملین ڈالر ICBC چائنا، 350 ملین ڈالرعجمان بینک اور 700 ملین ڈالر دبئی بینک کے قرضے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رواں مالی سال پاکستان کو ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے 1.2 ارب ڈالر، ورلڈ بینک نے 2.5 ارب ڈالر، ایشیاء انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے 80.5 ملین ڈالر، چین نے 181.8 ملین ڈالر، امریکہ نے 65.5 ملین ڈالر اور فرانس نے 15 ملین ڈالر کے قرضے دیئے۔ 

جون 2018ء میں جب پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی تھی تو پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 95.24 ارب ڈالرتھے جبکہ گزشتہ 3 سال کے دوران یہ قرضے بڑھ کر 131 ارب ڈالرتک پہنچ چکے ہیں جن میں صرف گزشتہ ایک سال (31 دسمبر 2020 سے 31 دسمبر 2021ء) میں تقریباً 23 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جس میں گزشتہ ہفتے ایک ارب ڈالر کے 8 فیصد شرح سود پر سات سالہ سکوک بانڈز شامل نہیں۔ وزارت ِخزانہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مجموعی پبلک ڈیبٹ تقریباً 50 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جس میں ڈومیسٹک قرضے جیسا کہ انویسٹمنٹ بانڈز، ٹریژری بلز اور نیشنل سیونگ اسکیم شامل ہیں، جی ڈی پی کا 51 فیصد جبکہ ایکسٹرنل قرضے جن میں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، پیرس کلب، کمرشل بینک اور یورو بانڈز شامل ہیں، جی ڈی پی کا 41 فیصد ہیں۔ حکومت پاکستان کے زیادہ سے زیادہ قرضے لینے کے حد کے قانون FRDLA کے مطابق حکومت جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی لیکن اس وقت پاکستان کے مجموعی قرضے جی ڈی پی کے 88 فیصد سے تجاوز کر چکے ہیں جس کو 2032-33 تک کم کر کے جی ڈی پی کے 50 فیصد تک لانا ہے۔ 

سنہ 2020-21ء کے وفاقی بجٹ میں ان قرضوں پر سود کی ادائیگی حکومت پر سب سے بڑا مالی بوجھ تھا جو دفاعی اور ترقیاتی بجٹ سے بھی بڑھ گیا ہے اور یہ ملکی سلامتی کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ ہم اگر جنوبی ایشیاء میں سارک ممالک کی جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح کا پاکستان سے موازنہ کریں تو سری لنکا کے بعد پاکستان کے جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا اپنے بیرونی قرضوں اور بانڈز کی ادائیگیوں میں دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور وہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے چین کو اپنی پورٹس سمیت دیگر قیمتی اثاثے 99 سال کیلئے گروی رکھ رہا ہے۔ پاکستان کے ناقابلِ برداشت قرضوں پر دنیا کی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں S&P، موڈیز اور Fitch نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو کم کیا ہے جبکہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز (IPR) نے پاکستان کے قرضوں کی ادائیگیوں کو ملکی معیشت کیلئے ناقابلِ برداشت اور تشویشناک قرار دیا ہے جس نے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے ۔  

تین سال میں حکومت نے 33 ارب ڈالر کے جو بیرونی قرضے لئے، وہ زیادہ تر بجٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے تھے لیکن اگر یہ قرضے ملک میں ڈیم بنانے یا سستی انرجی کے حصول کے منصوبوں کیلئے لئے جاتے تو ان منصوبوں سے نہ صرف ملکی معیشت میں ترقی اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے بلکہ ان منصوبوں کے طویل المیعاد معاشی فوائد سے ہی بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بھی ہو سکتی تھیں۔ گزشتہ مالی سال بیرونی قرضوں پر 3052 ارب روپے سود ادا کیا گیا جس میں 2750 ارب روپے مقامی قرضوں پر سود کی ادائیگیاں تھیں جبکہ دفاع کیلئے 1370 ارب روپے، تعلیم کیلئے 28 ارب روپے اور صحت کیلئے 22 ارب روپے رکھے گئے جو مجموعی طور پر 1420 ارب روپے بنتے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے قرضوں پر صرف سود کی ادائیگیاں دفاع، تعلیم اور صحت کے اخراجات سے بھی دگنی ہیں، جو ملکی سلامتی کیلئے ایک خطرہ ہے۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ وہ ایکسپورٹ، بیرونی سرمایہ کاری اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ کر کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے تاکہ ہم مہنگے بیرونی قرضوں کے جال میں مزید نہ پھنسیں۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ 

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments