News

6/recent/ticker-posts

پی ٹی وی کے 57 سال

پاکستان ٹیلی ویژن نے جمہ کے دن اپنی 57 ویں سالگرہ منائی۔ پی ٹی وی پاکستان کے ان اداروں میں سرفہرست ہے جنھوں نے قیام پاکستان کے بعد جنم لیا۔ یعنی یہ وہ ادارہ ہے جو Colonial Legacy نہیں رکھتا، اس کو نئی قوم نے اپنے شاندار آغاز کے بعد جنم دیا۔ پی ٹی وی ایک ریاستی ادارہ ہے جو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا لیکن بد قسمتی سے اسے ریاستی ادارے کے بجائے حکومتی ادارے کے طور پر چلایا گیا۔ پی ٹی وی کی کہانی چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ پی ٹی وی نے 30 سال سے زائد عرصے تک ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور اور باقی عرصہ نام نہاد جمہوری دور کے تابع گزرا۔ اس پورے عرصے میں صرف انتخابات کے دوران قائم نگران حکومتوں میں پی ٹی وی نے چند ماہ ایک قومی ادارے کے طور پر کام کیا۔ 

باقی تمام عرصے میں یہ قومی ادارہ حکمران سیاسی جماعتوں کی خواہشات کے مطابق چلتا رہا۔ پی ٹی وی کو پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی “ماں”کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں جتنے بھی نجی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں ان کے لیے ابتدائی افرادی قوت، تکنیکی صلاحیت اور پیشہ وارانہ رہنمائی پاکستان ٹیلی ویژن کے پروفیشنلز نے ہی فراہم کی۔ اس وقت بھی اکثر نجی چینلز کا انتظام و انصرام چلانے میں پی ٹی وی کے پرانے اور تجربہ کار لوگ معاونت کر رہے ہیں۔ 1975 میں جب میں نے پی ٹی وی کو بطور نیو ز پروڈیوسر، رپورٹر جوائن کیا تو پی ٹی وی کی عمر بمشکل گیارہ سال تھی۔ ان ایام میں بھی نیوز اور حالات حاضرہ میں درخواست دینے کی اہلیت کم از کم ایم اے سیکنڈ ڈویژن ہوا کرتی تھی۔ 36 سال تک پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر، رپورٹر، جنرل مینیجر، ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز رہتے ہوئے میں نے 26 ایم ڈیز کے دور دیکھے جن کی یادیں اور باتیں میرے حافظے میں بہت حد تک محفوظ ہیں۔ 

سنہ 1964 سے لے کر 2003 تک پاکستان کے سیاسی نظام میں پی ٹی وی کی مناپلی قائم رہی، نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد پی ٹی وی کی الیکٹرانک مناپلی تو ختم ہو گئی لیکن حکومتی ترجمان کے طور پر اس کا کردار اب تک حاوی ہے۔ یہ ادارہ جو 1964 میں ریڈیو پاکستان کے ایک گوشے (کینٹین کو پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا) سے شروع ہوا، اب پھیل کر ایک سلطنت بن چکا ہے۔ کھرب ہا روپے کے عمارتی اثاثے، ارب ہا روپے کے تیکنیکی آثاثے اور کثیر تعداد میں پیشہ وارانہ مہارت کی حامل افرادی قوت نے اس ادارے کو ملک بھر میں ایک منفرد حیثیت کا حامل بنا دیا۔ پی آئی اے کی طرح پی ٹی وی بھی ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی پہچان ہے۔ پی ٹی وی کی پہلی دہائی ہنی مون کا گولڈن پیریڈ تھا۔ دوسری دہائی میں پروفیشنل ازم اور ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری دہائی میں گلیمر اور اشتہارات کی رہی ۔ چوتھی دہائی میں اس کی مناپلی ختم ہوئی اور مسابقت کا دور آیا جو اب بھی ہے۔ آج کے دور میں بھی پی ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک ہے۔ اس کے پاس سب سے بہتر تیکنیکی سہولتیں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیشنلز کا گروپ موجود ہے۔

یہ ادارہ اب بھی ایک متحرک نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ملک کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی رویوں پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب کام تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومتی سطح پر پی ٹی وی کی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور اسے ایک حکومتی کے بجائے قومی ادارے کے طور پر چلانا چاہیں۔ سرکاری کارپوریشنوں اور اداروں میں اخراجات کو متناسب سطح پر رکھنے کا فارمولا یہ ہے کہ تنخواہوں اور اسٹیبلشمنٹ کا خرچ 25 اور 28 فی صد سے زائد نہ ہونے دیا جائے۔ پی ٹی وی بھی اسی فارمولے کے تحت 1988 تک عمل کرتا رہا۔ لیکن یہ تناسب 60 فیصد سے بھی زائد ہو گیا۔ جس ادارے کا ورکنگ ڈائیریکٹر بمشکل ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور مراعات لے وہاں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے جانے والے افراد بغیر کام لاکھوں روپے سالانہ سال ہا سال تک وصول کرتے رہیں تو ادارہ تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔

اس ادارے میں بڑا Potential ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف یہ کہ مالی اعتبار سے با آسانی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے بلکہ پی ٹی وی دوسرے ٹی وی چینلز کے لیے ایک اکیڈیمی اور قومی رویوں کی تعمیر اور جمہوری قدروں کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ٹیلی ویژن اکیڈیمی نہیں مجبوراً ہر چینل محدود وسائل اور حالات کی بناء پر جزو وقتی تربیت کا اہتمام کرتا ہے اسی بناء پر اکثر ٹی وی چینلز میں معیاری پروگرامنگ اور صحافتی اخلاقیات کے عمل میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ٹیلی ویژن اکیڈیمی جیسے اہم شعبے کو غیر متحرک کیوں کیا گیا۔

سرور منیر 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments