News

6/recent/ticker-posts

ریاستِ مدینہ کے حکمراں

آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، قانون کی بالادستی، خود احتسابی، عدل و انصاف، قومی خزانے کی حفاظت، خوشامدیوں سے دوری، ہدیہ قبول کرنے سے انکار، سادگی، خوفِ خدا، اچھے رفقا کی عہدوں پر تقرری، اصولِ مساوات، عوام کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ایک اچھے مسلمان حکمران کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ مؤرخین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حجّاج کے زمانے میں جب لوگ صبح کرتے تھے تو آپس میں ملاقات کے وقت گزشتہ رات کے قتل، پھانسیوں، سزاؤں اور اسی طرح کے دیگر معاملات پر گفتگو کرتے۔ ولید چونکہ تاجر اور صنعت کار تھا لہٰذا اس کے زمانے میں لوگ تعمیرات، صنعت و حرفت، زراعت و کاشتکاری کی گفتگو کرتے اور جب سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا تو چونکہ کھانے پینے کا شوقین تھا لہٰذا لوگ اس کے زمانے میں اچھے سے اچھے کھانے کے بارے میں گفتگو کرتے اور جب حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْعَزِیْز خلیفہ بنے، چونکہ عدل و انصاف ان کے مزاج کا حصہ تھا، وہ گزشتہ زمانوں میں کی گئی ناانصافیوں کا ازالہ کرتے تھے تو رعایا میں بھی اسی مزاج کا چلن عام ہو گیا۔

اِن تمہیدی کلمات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں کا اس دور کے حکمرانوں سے موازنہ کریں لیکن ان سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اندازِ حکمرانی کیا ہونا چاہئے اور حکمرانوں کی ترجیحات کا اثر عوام کی روز مرہ زندگی پر کیسے مرتب ہوتا ہے۔ اگر حکمران خود کو عوام کی عدالت میں جواب دہ سمجھیں تو عوام کے اندر بھی خوفِ خدا کے جذبات موجزن ہو جاتے ہیں لیکن اگر حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھیں تو عوام میں بھی قانون شکنی کا رجحان فروغ پاتا ہے۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ پر کوئی الزام عائد کیا جاتا ہے، وہ چاہے جمی کارٹر ہوں یا بل کلنٹن تو قانون کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا نظر آتا ہے۔ ان کے اس عمل کی وجہ سے عام شہری قانون شکنی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اچھا حکمران وہ ہی ہے جو امانت و دیانت اور صداقت کا علمبردار ہو۔ جو سرکاری خزانے کو شیرِ مادر نہ سمجھے بلکہ اسے خدا کی امانت سمجھے۔ 

سرکاری خزانے کو ذاتی تصرف میں لانا ایک قبیح فعل ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب سرکاری خزانے کو ذاتی ملکیت سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دنوں توشہ خانے کا تذکرہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم جب اپوزیشن میں تھے تو وہ اس بات کے قائل تھے کہ عوام کو معلومات تک رسائی کا مکمل حق حاصل ہونا چاہئے۔ سرکاری معلومات خفیہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔ حکمرانوں کو ملنے والے تحائف کے حوالے سے جناب عمران خان کا نقطہ نظر بڑا واضح تھا۔ یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر گزشتہ چند برسوں تک غیرملکی حکمرانوں سے ملنے والے تحائف کا تذکرہ کم ہی سننے کو ملتا تھا۔ اس معاملے کو زیادہ عوامی توجہ اس وقت ملی جب سابق دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے غیرملکی حکمرانوں سے ملنے والے تحائف کی تفصیل منظر عام پر لانے کو ملکی مفاد کے خلاف قرار دیا۔ 

اِس کے ردِ عمل میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الزام عائد کیا کہ ان تفصیلات کو چھپانے کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری حیثیت سے ملنے والے بیش قیمت تحائف حکمرانوں نے اپنے پاس رکھ لئے ہیں۔ ان الزامات کے بعد وہ یہ تفصیلات منظر عام پر لے آئے اور اس کی تفصیل پاکستان انفارمیشن کمیشن میں جمع کرا دی گئی۔ دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب موجودہ حکومت کو غیرملکی مہمانوں سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا کہا گیا تو اس نے وہی عذر پیش کیا جو سابق حکمران پیش کیا کرتے تھے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی یہی کہا گیا کہ ان تحائف کی تفصیلات منظر عام پر لانے سے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں جبکہ قانونی ماہرین کے مطابق حکومت یہ تفصیلات جمع کروانے کی پابند ہے مگر حکومت نے پی آئی سی میں اس سے بالکل مختلف جواب جمع کرایا۔ 

یہ معاملہ خبروں کی زینت نہ بنتا کہ اگر یہ تحائف نیلام کرنے کی تفصیلات منظر عام پر نہ آتیں۔ کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری کئے گئے ایک مراسلے کے مطابق سربراہان مملکت اور دیگر وزراء کو ملنے والے 170 سے زائد تحائف کچھ عرصہ قبل بولی کے تحت نیلام کئے گئے۔ ان تحائف میں قیمتی گھڑیاں، سونے کے زیورات، مختلف ڈیکوریشن پیسز، ہیرے جڑے ہوئے قلم اور قالین وغیرہ شامل تھے۔  تفصیلات کے مطابق ان اشیاء کی نیلامی میں صرف سول اور فوجی افسروں نے حصہ لیا تھا، اسی معاملے پر ایک شہری نے پی آئی سی میں موجود حکومت بشمول وزیراعظم کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی اور حکومت نے اسے ملکی مفاد میں نہ ہونے کا جواز پیشکرتے ہوئے وضاحت جمع کرائی۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری دورے پر جانے والی کوئی بھی شخصیت بیرون ملک سے ملنے والا تحفہ خود رکھنا چاہے تو اسے اِس تحفے کی قیمت کا کچھ حصہ جمع کروانا ہوتا ہے، یہ پہلے کسی بھی چیز کی کل مالیت کی 15 فیصد رقم پر مشتمل تھا جسے اب بڑھا کر 50 فیصد کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے پاکستان کے تین سابق سربراہان مملکت کو ان توشہ خانے سے غیرقانونی طور پر تحائف حاصل کرنے کے الزام میں مقدمات کا سامنا ہے۔ مقدمات کا سامنا کرنے والے حکمرانوں میں آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور سید یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن قواعد کے تحت سابق حکمرانوں کے خلاف نیب میں مقدمات بنائے گئے، کیا موجودہ حکمرانوں کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے؟ جس ملک میں مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہو، اشیائے ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہوں، ذرائع روزگار روز بروز سکڑتے جا رہے ہوں، غریب لوگ فاقہ کشی کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوں، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی معیشت پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال دیا ہو، اس ملک کے حکمرانوں کو اس طرح کے اللے تللوں کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ حکمرانوں نے اگر اپنی روش تبدیل نہ کی توتاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

پیر فاروق بہاو الحق شاہ

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments