News

6/recent/ticker-posts

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جن لوگوں نے آمریت کی مزاحمت کی اور جمہوریت کی بحالی کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کبھی کسی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا ان میں بہت سوں کے نام آتے ہیں۔ سب سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر ہو جائے۔ انہوں نے ایوب خان کی آمریت کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں وہ ایک مظبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ کہا جاتا ہے کہ سابق صدر ایوب خان نے وہ انتخابات دھاندلی کے زور پر جیتا، اس کے بعد ایوب خان دور میں ہی ذوالفقار علی بھٹو، اصغر خان اور کئی دوسرے رہنمائوں نے جمہوریت کیلئے بہت کام کیا۔ 1977ء میں بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (PNA) تشکیل دیا گیا۔ اس اتحاد میں 9 پارٹیاں شامل تھیں۔ بظاہر یہ اتحاد بھٹو حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا ۔ 

اس کے سربراہ مولانا مفتی محمود کو بنایا گیا اور اس میں نواب زادہ نصراللہ خان ، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، بیگم نسیم ولی خان، ملک محمد قاسم اور دیگر کئی اہم رہنما شامل تھے۔ 1977ء کے انتخابات قومی اسمبلی کی 200 نشستوں پر ہوئے۔ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو 162 اور پی این اے کو 38 نشستیں ملیں۔ یہ نتائج حیران کن تھے کیونکہ عام خیال یہی کیا جاتا تھا کہ انتخابات تو پی پی پی ہی جیتے گی لیکن پی این اے بھی اچھی خاصی نشستیں حاصل کر لے گی ۔ سیاسی پنڈتوں کے نزدیک پی این اے کو 70 سے 75 نشستیں ملنے کی امید تھی۔ لیکن جب اعلان ہوا کہ قومی اتحاد 38 نشستوں پر کامیاب ہوا ہے تو اپوزیشن نے یہ نتائج مسترد کر دئیے۔ اس کے بعد ''دھاندلی‘‘ کے خلاف تحریک شروع کر دی گئی۔ مبینہ دھاندلی کے باوجود ان انتخابات میں شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمداور نوابزادہ نصراللہ خان اپنی اپنی نشستیں جیت گئے تھے۔ 

لیکن جب اپوزیشن نے انتخابی نتائج مسترد کر دئیے تو ان رہنمائوں کی انتخابی فتح بھی بے معنی ہو کے رہ گئی۔ تحریک بڑی زبردست چلی ۔ خاص طور پر شہریوں کے اندر اس کا بڑا زور تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے دھاندلی کے الزمات کو مسترد کر دیا۔ لیکن تحریک کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے آخرکار اپوزیشن سے مذاکرات پر مجبور ہو گئے۔ یہ مذاکرات ہوئے اور اس میں حکومت کی طرف سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مولانا کوثر نیازی اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے حصہ لیا۔  اپوزیشن کی ٹیم میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد شامل تھے۔ مذاکرات کئی روز تک جاری رہے اور پھر 4 جولائی کو یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تصفیہ ہو گیا ہے جس کے مطابق اکتوبر 1977ء میں دوبارہ انتخابات ہوں گے اس کے علاوہ دیگر امور پر بھی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ لیکن پھر 5 جولائی کو جنرل ضیاالحق نے مارشل نافذ کر دیا اور یہ کہا گیا کہ مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے یہ سب کچھ کرنا پڑا ۔ 

نوابزادہ نصراللہ خان آخری دم تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے ۔ لیکن جنرل ضیا الحق نے بلاجواز مارشل نافذ کر دیا ، اگر چہ اس بات پر ابھی تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ ایک ٹی وی چینل پر پروفیسر غفور احمد نے یہ انکشاف کیا تھا کہ مذاکرات کو آخری وقت پر بیگم نسیم ولی خان اور ائیرمارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان نے سبوتاژ کر دیا تھا ۔ ہرحال اب یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے ۔ 5 جولائی 1977ء کو مارشل لا کے نفاذ کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان کی جمہوری جدوجہد کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جنرل ضیا الحق نے دوبار عام انتخابات ملتوی کئے۔ تمام اہم اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس دوران تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کا قیام عمل میں آیا 1984ء میں نوابزادہ نصراللہ خان کو رہا کر دیا گیا۔ 

اس کے بعد انہوں نے ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد شروع کر دی۔ ایم آر ڈی میں ان کی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک استقلال ، جمعیت العلمائے اسلام ، قومی محاذ آزادی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل تھیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان اگرچہ ایک چھوٹی جماعت کے سربراہ تھے لیکن اس جماعت نے جمہوریت کی بحالی کیلئے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا، نوابزادہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اتحاد بنانے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ ایم آرڈی نے بڑے بڑے عوامی جلسے کئے جن میں نوابزادہ نصراللہ خان کی تقاریر لوگوں کے دلوں کو گرما دیتی تھیں، وہ بلا کے مقرر تھے، وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اپنی تقریروں میں جب وہ خوبصورت اشعار کی آمیزش کرتے تھے۔ تو ان کی تقاریر کا لطف دوبالا ہوجاتا تھا۔ نوابزادہ کی تقاریر کا ایک اور وصف یہ تھا کہ وہ اس میں طنز کے تیر چلاتے تھے۔ اور ان کی حس مزاح بھی بڑی زبردست تھی۔ 

پی این اے کے جلسوں میں بھی ان کی تقاریر کو بڑے شوق سے سنا جاتا تھا۔ 1988ء کے انتخابات میں جب پی پی پی کامیاب ہوئی تو توقع کی جارہی تھی۔ کہ نوابزادہ نصراللہ خان کو صدر منتخب کر لیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور غلام اسحاق خان ہی صدارت کے عہدے پر فائز رہے۔ بے نظیر بھٹو بھی نوابزادہ کو صدر دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن خواہش کے باوجود وہ ایسا نہ کر سکیں۔ 1993ء میں جب بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئیں تو نوابزادہ نصراللہ خان کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ان کے بیٹے نوابزادہ منصور علی خان کو پنجاب کا وزیر بنا دیا گیا۔ اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار وہ کسی حکومت کا حصہ بنے۔ 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے تو نوابزادہ نصراللہ خان ان کی حکومت کے خلاف بھی متحرک ہو گئے، اور انہوں نے اے آرڈی بنائی اس اتحاد میں ن لیگ بھی شامل تھی۔

لیکن جب 2000 ء میں سابق وزیراعظم نواز شریف سعودی عرب چلے گئے تو نوابزادہ کو بہت قلق ہوا۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ بہر حال انہوں نے مشرف کی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا، اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ نکلسن روڈ لاہور پر ان کا گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہاں بڑے بڑے سیاسی رہنما اور کارکن آیا کرتے تھے، انہیں ان کی زندگی میں ہی ''بابائے جمہوریت‘‘ کا خطاب دے دیا گیا تھا۔ ان کی وجہ شہرت یہ بھی تھی کہ وہ سیاسی رہنمائوں کو اپنے باغوں کے آم تحفے کے طور پر بھیجا کرتے تھے۔ وہ ایک نہایت خوددار اور وضع دار انسان تھے جنہوں نے کبھی کسی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا اور نہ ہی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیا۔ 1990ء میں جب غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا تو انہوں نے پھر پی پی پی سے اتحاد کر لیا اور پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کا قیام عمل میں لایا گیا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ نوابزادہ نصراللہ خان مغربی پاکستان کے وہ واحد رہنما تھے۔ جو مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کی عوامی لیگ میں شامل تھے۔ ان کی ایک اور پہچان حقہ اور ٹوپی تھے جو تا حیات ان کے ساتھ رہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کبھی ناشائستہ زبان استعمال نہیں کی۔ وہ سیاسی کارکنوں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ اگرچہ ان کی جماعت ( پی ڈی پی ) میں قابل ذکر لوگوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن وہ اکیلے کافی تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ بذات خود چلتی پھرتی سیاسی جماعت تھے۔ 13 نومبر 1916ء کو خان گڑھ میں جنم لینے والا یہ بے مثل سیاسی رہنما 27 ستمبر 2003ء کو عالم جادواں کو سدھار گیا ۔ نوابزادہ نصراللہ خان جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ وہ ظلمت نہیں روشنی کے پیامبر تھے۔ صاحب علم بھی تھے اور صاحب نظر بھی۔ ظہیر کاشمیری نے شائد ان جیسی ہستوں کے بارے میں ہی کہا تھا۔

اہل دل ملتے نہیں اہل نظر ملتے نہیں
ظلمت دوراں میں خورشید سحر ملتے نہیں

عبدالحفیظ ظفر

بشکریہ دنیا نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments