News

6/recent/ticker-posts

نیا افغانستان : ڈاکٹر عبدالقدیر خان


افغانستان کے واقعات پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ میں شہ سرخی بنے ہوئے ہیں، ہر ملک اپنے نظریے کے مطابق بیان بازی کر رہا ہے۔ مغربی ممالک کو طالبان کی کامیابی بہت ناگوار گزری ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرنا، حملہ کرنا وہ بھی ہزاروں کلومیٹر دور غلط تھا، بربریت تھی، ظلم تھا، صرف وہ وجوہات تلاش کر رہے ہیں کہ وہ کیوں ناکام ہو گئے۔ تم تو 1400 برس بعد بھی جنگِ یرموک، جنگِ قادسیہ میں ذلّت آمیز شکست کی وجوہات سے بے بہرہ ہو۔ جس طرح ویت نام کے عوام نے پوری دنیا پر ثابت کر دیا تھا‘ وہ لڑائی میں تو پسپا ہو سکتے تھے مگر جنگ جیتنا ان کی منزل تھی، انھوں نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں یعنی فرانس اور امریکہ کو مکمل شکست دی اور ملک سے نکال دیا۔ ویت نام کو چین اور روس کی پوری مدد حاصل تھی مگر پھر بھی منزل بہت دشوار تھی۔ لاتعداد قربانیوں اور برسوں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کر کے انھوں نے آزادی حاصل کی، اب اپنے خطے میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر مشہور ہے۔

اپنی آزادی اور عزّت کی خاطر انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضرب المثل ہیں۔ بالکل اسی طرح اب افغان بھائیوں نے دو بڑی طاقتوں یعنی روس اور امریکہ کو شکست دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ایمان دلوں میں ہو تو ﷲ تعالیٰ خود فتح مہیا کر دیتا ہے۔ افغانوں کا سوائے ﷲ تعالیٰ اور خود کے کوئی مددگار نہ تھا۔ روسی اور اس کی پرانی کالونیاں اور مغربی ممالک ان کے جانی دشمن بنے بیٹھے تھے۔ لاتعداد افواج ، مہلک ہتھیار، الیکٹرانک آلات‘ جذبہ جہاد کے آگے برف کی طرح پگھل گئے۔ چند ہزار مجاہدین نے برسوں کی پروردہ اور غیرملکی اسلحہ سے لیس فوج کو چند دنوں میں بُری طرح شکست فاش دی اور وہ اب اپنا ملک خود چلانا چاہتے ہیں۔ اُمید ہے کہ پچھلے تجربے کی روشنی میں وہ بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔ پوری دنیا ( طالبان مخالف) اپنی ذہنیت و اعتقاد کی روشنی میں طالبان پر الزامات لگا رہے ہیں اور دوسرے افغان بھائیوں کی بھی بے عزتی کرنا چاہ رہے ہیں۔ دیکھئے جب ملک پر ایک غاصب ڈکٹیٹر بیٹھ جائے اور خودغرض لوگ اس کا ساتھ دینے لگیں تو پھر عوام مجبور ہو جاتے ہیں اور ہر ایک کو اپنے پیٹ، اپنے خاندان کی بہتری اور زندگی کی فکر رہنے لگتی ہے۔ 

یہی حال پہلے ترکی میں تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ممالک اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بار بار انقلاب لا کر حکومت پر قبضہ کر کے امیر سے امیر ترین بنتے گئے۔ میں جب 1961 میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی گیا تو دیکھا کہ خوبصورت ترکش عورتیں وہاں فرش، ٹائلٹ دھونے پر مامور تھیں، مجھے بے حد دُکھ ہوتا تھا مگر وہ بے چاری مجبور تھیں، ملک میں ڈاکو محلات میں بیٹھے عیاشی کر رہے تھے، عوام بھوکے مر رہے تھے اور عزّت بیچنے پر مجبور تھے۔ موجودہ صدر اردگان نے پہلی مرتبہ قوم کو وقار اور عزت دی۔ اس سے پہلے وزیر اعظم بلند ایجوت نے اس کی بنیاد ڈال دی تھی، ﷲ بخشے بے حد نفیس انسان تھے‘ میں ان سے 1978 میں ملا تھا۔ یہی حال پچھلے چند برسوں سے افغانستان میں تھا۔ ایک بہادر، غیّور قوم کو چور، نااہل، حکمرانوں نے دنیا میں فقیر، مجرم بنا کر پیش کر دیا اور عوام روٹی کے ٹکڑوں کو ترس گئے۔ ان لوگوں نے حکومت میں، فوج میں، نوکریاں کیں مگر حکومت کی حمایت یا مدد کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزّت، دو وقت کے کھانے کے لئے کی تھیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں افغان مہاجرین آئے، محنت کی اور عزت کی زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ 

ان کے مزاحمت نہ کرنے کی وجہ کمزوری یا بزدلی نہ تھی۔ وہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے یہاں ٹھہرے رہے اور وقت گزاری کرتے رہے مگر جوں ہی ان کے بہادر مجاہدین آئے اُنھوں نے ان پر ٹینک، گولیاں نہیں چلائیں۔ جو چند چور تھے وہ کروڑوں ڈالر لے کر فرار ہو گئے۔ ہمارے یہاں بھی یہ چیز عام رہی ہے۔ ہمارے لوگ کیسے مشرقی پاکستان سے بھاگے تھے۔ امریکی صدر اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حکومت میں موجود افغان بزدل تھے، ڈرپوک تھے۔ چند حکمران، خودغرض، لالچی ضرور بزدل ہوں گے، عوام نہیں۔ افغانوں کی تاریخ شجاعت سے بھری پڑی ہے۔ گویا ہم محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی کو کبھی بھول سکتے ہیں، کیا ہم سکھوں کا جو حشر اور انگریزوں کو جو سبق افغانوں نے پڑھایا تھا ، بھول سکتے ہیں۔

ایک ملک کی جدّوجہد میں 20 سال کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر ایک انسان کی عمر میں 20 سال بہت ہوتے ہیں۔ انھوں نے 20 سال جنگ لڑ کے خود آزادی حاصل کی ہے ان کو آزادی کی قیمت کا اندازہ ہے۔ الجیریا کے قومی ہیرو احمد بن بیلا نے بھٹو صاحب کو دارالحکومت کے باہر قبرستان دکھایا تھا جہاں لاکھوں شہدا مدفن تھے اور کشمیر کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ آزادی قربانی سے ملتی ہے، تازہ مثال ویتنام اور افغانستان ہے۔ دنیا کی ایٹمی قوتیں ان کے جذبہ جہاد کو مندمل نہ کر سکیں اور نہ ان کو ’’اسٹون ایج‘‘ کی دھمکی کا سن کر ڈر لگا۔ آج بھی سامنے کھڑے ہوکر کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی کو اب بھی غلط فہمی ہے کہ ہمیں ڈرا دھمکا کر من مانی کر لے گا تو کوشش کر لے، ہم تیار ہیں۔ ﷲ پاک افغان، پٹھان بھائیوں پر اپنا رحم و کرم قائم رکھے ان کی رہنمائی فرمائے اور اسے دنیائے اسلام کی ایک مثالی قوم اور مثالی ملک بنا دے۔ آمین۔ ثم آمین یا رب العالمین۔ ان سے ایک درخواست ہے کہ احکاماتِ اِلٰہی اور سنتِ رسولﷺ (خطبہ حجتہ الوداع) پر صدق دل سے عمل کریں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

بشکریہ روزنامہ جنگ


 
Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments