News

6/recent/ticker-posts

طالبان کی فتح : اثرات و مضرات

افغان دارالحکومت کابل پر سرکاری فورسز کی جانب سے کسی مزاحمت کے بغیر طالبان کا قبضہ جہاں دنیا بھر کے لئے حیرت و استعجاب کا باعث ہے وہاں خود طالبان قیادت بھی انگشتِ بدنداں ہے، اُسے بھی صرف 10 روز میں امریکہ نواز اشرف غنی حکومت کے انہدام اور پورے افغانستان کی فتح کی امید نہیں تھی۔ سقوطِ کابل کے ساتھ ہی 20 سال کی صبر آزما جدوجہد اور ہزاروں جانوں کی قربانی کے بعد افغانستان میں ’امارت اسلامی‘ کی بحالی بلاشبہ طالبان کی بہت بڑی فتح ہے لیکن آنے والے وقتوں میں اسے قائم و دائم رکھنے کے لئے انہیں اس سے بھی بڑی آزمائشوں سے گزرنا ہو گا۔ امریکی صدر بائیڈن نے حال ہی میں بڑے یقین کے ساتھ کہا تھا کہ افغانستان کی 3 لاکھ فوج جو جدید ترین تربیت اور مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس ہے، 70 ہزار بےساز و سامان طالبان کو کیسے ملک پر قبضہ کرنے دے گی لیکن ثابت ہوا کہ محض عددی طاقت جذبے کی قوت پر غالب نہیں آسکتی۔ 

پھر یہی ہوا کہ 89 ارب ڈالر کے خرچے سے جو سرکاری فوج کھڑی کی گئی تھی اس نے نہ صرف مزاحمت نہیں کی بلکہ اس کے حوصلے اتنے پست تھے کہ اہم ترین مواقع پر خود ہتھیار ڈال کر حملہ آوروں کے ساتھ شامل ہو گئی۔ اس فتح میں جہاں طالبان کی حکمت عملی کام آئی وہاں کابل حکومت کی بےتدبیری، نااہلی اور کرپشن کی داستانوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ اس وقت جبکہ صدر اشرف غنی اپنے ساتھیوں سمیت ملک سے اور سرکاری فوج میدان جنگ سے فرار ہو چکی ہے اور دوسری سیکورٹی فورسز کے اہلکار شہریوں کو تحفظ دینے کی بجائے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ہیں، دارلحکومت کابل غیریقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ طالبان قیادت نے کابل پر حملہ نہ کرنے اور برسراقتدار طبقے اور اتحادیوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر کے موقع فراہم کیا تھا کہ شہر کا نظم و ضبط برقرار رہے مگر سرکاری مشینری بےاثر ہونے کے باعث طالبان کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی تاکہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ 

اس وقت کابل کا صدارتی محل طالبان کی تحویل میں ہے اور ان کے بعض اہم رہنما بھی وہاں پہنچ چکے ہیں جو حکومت سازی کے عمل میں شریک ہوں گے۔ سرکاری دفاتر پر امارت اسلامی کے پرچم لہرا دیے گئے ہیں۔ شہر میں لوٹ مار کے اندیشے کے پیش نظر کرفیو نافذ ہے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے سفارتی عملے کا انخلا بلا روک ٹوک جاری ہے۔ امریکہ سمیت بعض ملکوں نے اپنے سفارتخانے بند کر دیے ہیں۔ فراری حکومت کے سیاستدانوں حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار نے قومی رابطہ کونسل قائم کر دی ہے جس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے عبوری حکومت قائم کر کے پُرامن انتقالِ اقتدار کو ممکن بنائے گی مگر طالبان قیادت نے یہ تجویز مسترد کر دی ہے اور اقتدار فوری اور غیرمشروط طور پر طالبان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بات چیت تاحال جاری ہے جس کے نتائج کا انتظار ہے۔ 

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے اور ان کے سابقہ دور حکومت کی پالیسیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکہ نے انسانی حقوق کے احترام کی یقین دہانی کے بغیر نئی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور بعض دوسرے ممالک نے بھی اس کے مؤقف کی تائید کی ہے۔ کئی ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں خواتین کے حقوق کے بارے میں اعتراضات اُٹھا کر طالبان کے اقتدار کی مخالفت کر رہی ہیں۔ طالبان قیادت نے ان کے تحفظات دور کرنے کیلئے واضح کیا ہے کہ طالبان اب 20 سال پہلے والے طالبان نہیں رہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد اب پہلے جیسے سخت گیر قوانین نافذ نہیں کئے جائیں گے۔ شہریوں کے ہر طبقے، خاص طور پر خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ 

اسی دوران نیو یارک میں سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں افغانستان میں طالبان کی فتح اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور ہو گا۔ ادھر افغان رہنماؤں کے دو وفود جن میں شمالی اتحاد کے زعما بھی شامل ہیں، صلاح مشورے کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ بلاشبہ یہ پاکستان کے لئے فکر و تدبر اور آزمائش کا لمحہ ہے۔ افغان امن میں اس نے جو کردار ادا کیا، ساری دنیا اس کی معترف ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل فوجی نہیں سیاسی ہے۔ وہ طالبان کی یلغار سے قبل کابل حکومت کو اشتراک اقتدار کا مشورہ دیتے رہے مگر کسی نے توجہ نہ دی۔ اب جبکہ طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی منشا کے خلاف کابل پر قابض ہو چکے ہیں اور خود افغانستان میں ان کے مخالفین موجود ہیں تو پاکستان کو کسی فریق کا ساتھ دیے بغیر پُرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اشرف غنی اور ان کے معاونین اسلامی اخوت تو درکنار حق ہمسائیگی کے تقاضے بھی بھول کر پاکستان پر ہمیشہ رکیک حملے کرتے رہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ طالبان کی متوقع حکومت پاکستان کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھتی ہے۔ پاکستان کو خاص طور پر بھارت کے زہریلے ہتھکنڈوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی جو اس موقع کو اپنے حق میں اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ طالبان کو بھی اپنی سخت گیر پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے ایک ایسا نظام ترتیب دینا ہو گا جو اسلامی احکامات و شعائر کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے عالمی تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ عالمی برادری کو بھی افغانستان کے زمینی حقائق مدنظر کھتے ہوئے اپنے رویوں میں معقولیت پیدا کرنا ہو گی تاکہ افغان امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ افغانستان خطے کا ایک اہم ملک ہے، اس کا امن خاص طور پر پاکستان کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اشرف غنی اور اس سے پہلے والی حکومتوں کے مقابلے میں امارت اسلامی کا رویہ پاکستان کے حق میں مناسب اور معقول ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments