News

6/recent/ticker-posts

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر سمیت قومی خودمختاری کے تقاضوں اور مستقبل کے لائحہ عمل جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیا اور افغانستان کی صورتحال پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں امن کے شراکت دار تو ہو سکتے ہیں لیکن جنگ میں ساتھ نہیں دے سکتے۔ بے شک وزیراعظم نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا کو اڈے دینے کے حوالے سے دو ٹوک جواب دیا جس کو پوری قوم نے سراہا کیونکہ فرنٹ لائن اتحادی کا کردارادا کرنے کے باوجود امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو حکومت کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے قومی یکجہتی کو فروغ دینا چاہئے کہ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں بھی وزیر اعظم نے واضح کیا تھا کہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے علاوہ ہر طرح کے تعاون کے لیے تیار ہے۔ 

ایسے میں خطے کے بدلتے منظر نامے میں قومی سیاسی و عسکری قیادت کا اکٹھا ہونا خوش آئند ہے کیونکہ دنیا کی نظریں افغانستان اور ان حالات میں پاکستان پر ٹکی ہیں۔ یہ بات بہرطور مدنظر رکھنے کی ہے کہ افغانستان کے حالات کا پاکستان پر براہِ راست اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایسے وقت کہ امریکا وہاں سے اپنی افواج نکال رہا ہے‘ افغانوں کی اپنی مرضی و منشا کے مطابق کوئی میکنزم نہ بنا تو پورے خطے بالخصوص پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کسی بھی تنازع میں پڑنے سے گریز کیا جانا چاہئے کیونکہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حالات میں مقبوضہ کشمیر اور افغانستان سے ملنے والے بعض اشارے سنگین چیلنجوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور ہماری کیفیت یہ ہے کہ داخلی مسائل سے نکلنے کی کاوشیں بھی پوری طرح بارآور نہیں ہو رہیں۔ اس جنگ کے دوران پاکستان کے 70 ہزار سے زائد شہری شہید جبکہ معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔

افسوس واشنگٹن نے پاکستان کی عظیم قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سلامتی اور خودمختاری کے معاملے میں ہمارا ساتھ دینے کے بجائے بھارت اور دیگر پاکستان دشمن عناصر کولاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔ کٹھ پتلی افغان حکومت کی معاونت سے بھارتی دہشت گردوں نے پاکستان میں جو وحشت و دہشت کا بازار گرم کیا‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ نائن الیون سانحہ کے بعد امریکی صدر بش نے پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب دھکیلنے کی دھمکی دے کر اسے افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر ''ڈومور‘‘ کے جو تقاضے کیے تھے ‘وہ آج بھی اسی طرح دہرائے جا رہے ہیں۔ اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے امریکی بلاک میں شامل ہونے سے سوویت یونین ہی نہیں دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا تھا ۔ افغانستان کے حوالے سے پاک امریکا تعلقات کے سبب 70ء کی دہائی سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں اور ان تعلقات کا خمیازہ لاکھوں افغان مہاجرین کے بوجھ کے علاوہ ملک میں پیدا ہونے والی بدامنی کی صورت میں بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 

دوسری جانب بھارت سمیت ملک دشمن قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان پر فیٹف کی تلوار لٹکتی رہے۔ دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ خطے میں قیامِ امن کیلئے پاک فوج اور قوم نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں‘ لہٰذا ایسی شاندار کارکردگی پر پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ دوسری جانب افغانستان میں گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران امریکی کارروائیوں کا سب سے بڑا مرکز‘ بگرام ایئر بیس بھی امریکا خالی کر چکا ہے۔ امریکا نے جب نائن الیون کے بعد افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تھا تو واشنگٹن اور اس کے اتحادی ممالک کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ افغانستان میں من پسند مفادات حاصل کرنے میں انہیں کن کٹھن راستوں سے گزرنا پڑے گا، یہی وجہ ہے کہ جہاں نتائج توقعات کے برعکس نکلے‘ وہیں شکست کے باعث ہونے والے مالی نقصانات نے ان ممالک خاص طور پر سپر پاور امریکا کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس امریکی کمزوری کا فائدہ کٹھ پتلی کابل انتظامیہ نے بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ 

افغانستان میں امن کے راستے میں غنی حکومت کے ایسے بیشتر کرپٹ اراکین حائل ہیں جنہوں نے ایک جانب امریکا سے مالی مفادات جبکہ دوسری جانب پاکستان کے خلاف بھارت سے بھی بھاری فنڈز حاصل کر رکھے ہیں اور اس کا مودی انتظامیہ نے خود بھی اعتراف کیا تھا کہ کچھ تنظیموں اور گروپوں کی بھارت کی جانب سے فنڈنگ کی گئی ہے۔ امریکا کو افغان جنگ میں 2001 ء سے اب تک 2 کھرب ڈالر سے زائد نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ 30 ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں نشانہ بنے جن میں سے 3 ہزار کے لگ بھگ ہلاک اور باقی عمر بھر کیلئے معذور ہوئے۔ افغانستان میں جنگ، تعمیرِ نو اور بحالی کے کاموں کیلئے کانگریس نے 144 بلین ڈالر کی رقم منظور کی لیکن جب ان منصوبوں کا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کل بجٹ کا 30 فیصد کرپشن اور دیگر ناجائز استعمال پر خرچ کیا گیا۔ 2008ء میں امریکی حکومت کے قائم کردہ ادارے ''سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘‘ کی رپورٹ کے مطابق‘ افغانستان کی تعمیرِ نو کیلئے ملنے والے 2.4 ارب ڈالرز پر شب خون مارا گیا؛ تاہم معیشت اور مالیات کے شعبے میں امریکا کا سب سے بڑا زوال یہ ہے کہ وہ آج قرض دینے والے ملک کے بجائے ''مقروض ‘‘ ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 

گزشتہ چند برس سے امریکی معیشت سست روی کا شکار ہونے سے لاکھوں شہری بے روزگار ہوئے ہیں۔ دنیا کی سب بڑی معاشی طاقت 2003ء کے بعد سے قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے جس میں مسلسل 500 ارب ڈالر سالانہ کی اوسط سے اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی قرضوں میں 2008 ء میں ایک کھرب ڈالر، 2009 ء میں 2 کھرب ڈالر، 2010 ء میں 1.7 کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ جون 2011 ء تک امریکا کے واجب الادا قرضوں کا حجم مجموعی طور پر 14.46 کھرب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ 2019ء میں امریکی بجٹ خسارہ بھی کھربوں ڈالرز تک پہنچ چکا تھا۔ اس کے بعد کورونا کی وبا سے امریکی عوام جو کچھ بھگتنا پڑا‘ وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ‘ پانچ لاکھ سے زائد امریکی کورونا کے سبب ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب افغانستان اور عراق کی جنگوں میں برطانیہ کی مداخلت پر اس کا 30 ارب پائونڈ خرچ ہوا۔ 

اسی طرح امریکا کے دوسرے اتحادی ممالک سے متعلق شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جانب سے افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے سے گریز کی بڑی وجہ جنگ میں ہونے والے عظیم اخراجات تھے جن کے وہ مزید متحمل نہ ہو سکتے تھے۔ افغانستان میں دہشت گردی کا وجود ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوا کیونکہ باہر سے آئے دہشت گردوں کی نظریں پاکستان پر بھی مرکوز ہیں، لہٰذا حکمت و تدبر سے کام لیتے ہوئے زمینی حقائق کو تسلیم کر کے کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہو گا جس پر عمل کر کے نہ صرف افغان سرزمین پر امن قائم ہو بلکہ ایسا نظام بھی وضع ہو جائے جوخطے میں امن کی ضمانت دے سکے۔ گزشتہ 4 دہائیوں کی کشیدگی کے دوران پاکستان نے 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی ذمہ داری سنبھالے رکھی‘ اس دوران پاکستان اسلحے اور منشیات جیسی علتوں کا شکار ہوا جس سے معاشرے میں شدت پسند نظریات کو فروغ ملا۔ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا معاملہ افغانستان کے معاشی اور سکیورٹی معاملات سے جڑا ہے۔ 

وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستانی حکومت نے افغان امن عمل میں بھرپور سہولت کاری کا فریضہ انجام دیا ہے اور اس کا ثمر دوحہ میں 29 فروری 2020ء کو طے پانے والے امریکا طالبان امن معاہدہ کی صورت میں سامنے آیا۔ اشرف غنی انتظامیہ بھارتی ایما پر امن معاہدے اور امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے کیونکہ بھارت کے افغانستان میں عمل دخل ختم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اقتدار کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں اور افغان حکومت وہی کچھ کر رہی ہے جو بھارت کی طرف سے اسے کہا جا رہا ہے۔

محمد عبداللہ حمید گل

بشکریہ دنیا نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments